کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 76
پاکستان نے ہجری ایوارڈ ان کو پیش کیا مگر انہوں نے رسمی طور پر قبول کرنا پسند نہ کیا اور رقم اسلامک یونیورسٹی کے لئے وقف کردی۔ سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ آزاد حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدر آباد دکن کبھی واپس نہ آئے بلکہ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فاؤنڈیشن، لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں تو بڑے کھلے دل سے کہا کہ میں اس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے!!
ڈاکٹر حمید اللہ اس وقت تک تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مصروف رہے جب تک قویٰ نے ساتھ دیا۔ جب بیماریوں نے اس طرح آلیا کہ یہ کام جاری نہ رکھ سکے تو اپنی جان سے قیمتی لائبریری علمی کاموں کے لئے وقف کردی اور خود امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے۔ جب مجھے ایک اعلیٰ پاکستانی افسر اور سید حسین نصر کے توسط سے ان کی اس حالت کا علم ہوا تو میں نے کوشش کی کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں اور اس سلسلے میں صدرِ مملکت کو میں نے ایک خط بھی لکھا جس کا مثبت جواب ملا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے اعزہ کی پیشکش کو ترجیح دی اور فلوریڈا منتقل ہوگئے۔ افسوس پاکستان ان کے اس آخری دور میں ان کی خدمت کی سعادت سے محروم رہا۔ ۲۰۰۲ء کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک صدی (۹۵ سال) اس عالم ناپایدار میں گزار کر، علم ودعوت کی سینکڑوں شمعیں روشن کرکے، اللہ کا یہ بندہ اپنے ربّ کی طرف مراجعت کرگیا تاکہ عبادالرحمن کے اَبدی مسکن کو پالے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی بشری لغزشوں سے صرف ِ نظر کرے اور انہیں جنت کی بہترین وادیوں میں جگہ دے!
ع آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!