کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 74
خانے میں رکھی جاتی تھی۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہ آسکتا تھا کہ کوئی اسمبلی کے دفتر میں ’کھڑاوں ‘ پہنے بیٹھا ہوگا۔ حیرانی کی یہ کیفیت چند ہی لمحات میں ان کی شفقت اور پیار سے بھری باتوں سے دور ہوگئی اور تبحر علمی کے ساتھ ان کا انکسار دل پر نقش ہوگیا۔ بات آہستہ آہستہ دھیمے لہجے میں ، کچھ کچھ رک کر اور سر ہلا ہلا کر کرتے تھے مگراس طرح کہ دل میں اُتر جاتی تھی۔ پھر ڈاکٹر صاحب نے اس وقت مجھے چونکا دیا جب ’چراغِ راہ‘ کے اسلامی قانون نمبر کی اشاعت پر بالکل غیر متوقع طور پر ان کا تین صفحے کا خط موصول ہوا۔ اور تین صفحے بھی ایسے کہ ان میں ۱۰ صفحوں کا لوازمہ موجود تھا، کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہلکے کاغذ پر چھوٹے حروف میں اس طرح لکھتے تھے کہ مختصر حاشئے کے سوا ہر جگہ بھری ہوتی تھی۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات ان کی محنت تھی۔ اسلامی قانون نمبر پر بہت خوش تھے۔ بڑی فراخدلی سے اس کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی بڑے انکسار سے لکھا کہ آپ کو زحمت سے بچانے کے لئے دوسرے ایڈیشن کے لئے کتابت کی غلطیوں کی نشاندہی کررہا ہوں … اور اس طرح صفحہ اور سطر کے تعین کے ساتھ تین صفحوں میں انہوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی بے احتیاطی کی تلافی کا سامان کردیاتھا۔ ڈاکٹر صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے مگر کس دل سے لکھوں کہ اس کا بیشتر حصہ محفوظ نہ رہ سکا! آخری خط میری مختصر کتاب Family Life of Islam کے فرانسیسی ترجمے پر ان کی تصحیح و تنقید سے عبارت تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۴۸ء میں جو فلیٹ پیرس میں کرائے پر لیا تھا، وہ ایک ایسی عمارت کی چوتھی منزل پر تھا، جس میں لفٹ نہ تھی۔ انہوں نے پیرس کے قیام کے آخری ایام تک اسی میں سکونت رکھی۔ اس فلیٹ کا ایک ایک کونہ بشمول باورچی خانہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی دولت تھی۔ زندگی اتنی سادہ کہ کپڑے کے چند جوڑوں اور کھانے کے چند برتنوں کے سوا ان کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ کھانے کے بارے میں بھی اتنے محتاط تھے کہ حلال گوشت نہ ملنے کے باعث زمانۂ طالب علمی میں ہی گوشت کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ سبزی اور پنیر پرگزارا کرتے تھے اور جب یہ شبہ ہوا کہ پنیر میں بھی جانور کی آنتوں کی چربی استعمال ہوتی ہے تو اس سے بھی دست کش ہوگئے۔ علم و تقویٰ، قناعت اور سادگی میں سلف کی مثال تھے۔