کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 73
کے سفر ہجرت کی تحقیق میں انہوں نے پاپیادہ اور گھوڑے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس راستے پر عملاً سفر کیا، جس سے حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تھی اور اس طرح اس شاہراہ کومتعین کیا جو روایات میں دھندلی ہوگئی تھی۔ قرآنِ پاک اور سیرتِ مبارکہ ان کی زندگی کے صورت گر ہی نہ تھے، ان کی علمی دلچسپی کا بھی محور تھے۔ فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان ہی میں دو جلدوں میں سیرتِ پاک کی تدوین بھی ان کے نمایاں کاموں میں سے ایک ہے۔ سیرت کی کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خود ہی کیا ہے جو شائع ہوگیا ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ مقالے اور مضامین ان کے قلم سے نکلے اور اہل علم کی تشنگی دور کرنے کا ذریعہ بنے۔ یقینا ان کی چھوٹی بڑی کل کتب کی تعداد ۱۵۰ سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے میری پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب میں ابھی طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھا اور وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو اسلامی دستور سازی میں مدد دینے کے لئے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ مولانا سید سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفراحمد انصاری کے ساتھ مجلس تعلیمات اسلامی کے رکن تھے اور اسمبلی کی عمارت ہی کے ایک حصے میں ان کا دفتر تھا۔ ان کے علم کی وسعت اور ان کے رعب کے تحت میرے ذہن نے ان کی ایک تصویر بنا لی تھی لیکن ان کو دیکھ کر مجھ کو ایک دھچکا سا لگا۔ میں نے ان کو ایک دبلا پتلا اور سادہ سا فقیر منش انسان پایا۔ اِکہرابدن، لمبا قد، صاف رنگ، کتابی چہرہ، اوسط لمبائی مگر غیر کفی ڈاڑھی، پرنور آنکھیں … اور ان سب سے بڑھ کر انکسار کا مجسمہ٭، تواضع کا پتلا، سادگی کا پیکر اور جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا، وہ یہ تھی کہ اسمبلی کے دفتر میں کرتے پاجامے میں ملبوس اور پاؤں میں کھڑاوں … پتا نہیں آج کی نسل اس شے سے واقف بھی ہے یا نہیں ؟ ہمارے بچپن میں وضو کے لئے لکڑی کی سادہ سی چپل ہوتی تھی جسے ’کھڑاوں ‘ کہتے تھے اور جو بالعموم غسل ٭ ڈاکٹر صاحب موصوف سے ملاقاتوں میں ان کے اخلاقِ کریمانہ کا ذاتی تجربہ ہوا ہے ۔ جس طرح وہ اپنی بات سناتے، بڑے حوصلہ سے اس سے اختلاف بھی برداشت کرتے ۔ اس خاکسار کو جب بھی ان سے تبادلہ خیالات کا موقع ملا، ان کی یہی خوبی ان سے شدید محبت پر منتج ہوتی رہی۔ اللہ تعالیٰ ان کا حسن خلق محققین کیلئے اُسوہ بنا دے۔ آمین! (حافظ عبد الرحمن مدنی)