کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 71
فلسفے پر۔ وہ تحقیق اور طریق تالیف کے باب میں مستشرق ہوئے لیکن اس پہلو سے مستشرقین سے مختلف تھے کہ ان کا قبلہ درست تھا۔ ان کے اصل مآخذ قرآن و سنت اور مسلمانوں کے معتبر اہل علم کی تصانیف تھیں ۔ انہوں نے اسلام کو، جیسا کہ وہ ہے، دنیا کے سامنے پیش کیا۔ البتہ تحقیق و تصنیف، تلاش و جستجو، نقد و احتساب کے ان تمام ذرائع کو کامیابی اور قدرت کے ساتھ استعمال کیا جو مستشرقین کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے ہیں اور اس طرح علمی میدان میں اہل مغرب کا جو قرض مسلمانوں پر تھا، اسے فرضِ کفایہ کے انداز میں ڈاکٹر صاحب نے چکا دیا اور ساتھ ساتھ وہ کیا جسے انگریزی محاورے Paying in the same coin کہا جاتا ہے۔ الحمدللہ!
ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ فکر و نظر کے اعتبار سے ٹھیٹھ مسلمان تھے۔ انہوں نے سلف کے نقطہ نظر کو پوری دیانت سے جدید زبان اور استشراق کے اُسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیش کیا اور ایک حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلامی علوم اور دورِ جدید کے طلبا اور محققین کے درمیان ایک پُل بن گئے۔
ڈاکٹر حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی علمی دلچسپیوں کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور اس حیثیت سے ان کا کام کثیر جہتی (Multi Dimensional) تھا۔ انہوں نے تحقیق کے مختلف میدانوں میں بڑے معرکہ کی چیزیں پیش کیں لیکن شاید ان کی سب سے زیادہ دین (Contribution) مسلمانوں کے بین الاقوامی قانون کے میدان میں ہے جس میں انہوں نے علمی دنیا سے یہ منوا لیا کہ بین الاقوامی قانون کے اصل بانی مسلمان فقہا اور علما ہیں ، سترہویں صدی کے مغربی مفکرین نہیں ۔ تدوین حدیث کے باب میں بھی ان کا کام بڑا وقیع ہے اور صحیفہ ہمام ابن منبہ کی تالیف اور اشاعت ان کا بڑا کارنامہ ہے جس نے یہ ثابت کردیا کہ حدیث کی کتابت دورِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور دورِ خلافت راشدہ رضی اللہ عنہم ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ یہ مسودہ ان کو جرمنی کی ایک لائبریری سے ملا جس کو مناسب انداز میں ایڈٹ کرکے اور یہ دکھا کر کہ اس اوّلین مسودے میں لکھی ہوئی احادیث اور بعد کے مجموعوں میں پائی جانے والی احادیث میں کوئی فرق نہیں ہے، انہوں نے بڑے سائنسی انداز میں حدیث کی صحت کو منوانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی زندگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات، سفر ہجرت، خطوط اور وثائق کی تلاش اور ترتیب …