کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 70
پریورپ آیا تھا۔ پھر میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں ۔ فرانسیسی شہریت بھی ساری عمر حاصل نہ کی۔ پناہ گزیں کی حیثیت پرتمام عمر قانع رہے اور محض وثیقہ راہ داری(Travel Documents) کے ذریعے عالمی سفر کرتے رہے جس کے تحت چھ ماہ کے اندر اندر انہیں فرانس واپس آنا پڑتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی ملک کے بھی شہری نہ تھے بلکہ ذ ہنی اور مادّی، ہر دو اعتبار سے اس دنیا ہی کے شہری نہ تھے۔ ۷۰ سال بغیر پاسپورٹ کے گزارے اور بالآخر وہاں چلے گئے جہاں کسی دنیاوی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہو تی … ہاں ان کے پاس ایمان، عمل صالح اور علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ کے لئے وقف کی جانے والی زندگی کا سرمایہ تھا اور یہی سب سے کام آنے والی چیز ہے!! ڈاکٹر حمید اللہ مشرق اور مغرب کی نوزبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور چار میں (اُردو، انگریزی، فرانسیسی، عربی) بلاواسطہ تحریر و تقریر کی خدمت انجام دیتے تھے۔ مطالعہ اور گفتگو کی اعلیٰ استعداد جرمنی، اطالوی، فارسی، ترکی اور روسی زبانوں میں بھی حاصل تھی۔ پیرس کے مشہور تحقیقی مرکزCentre National de la Researche Scientifique سے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔ علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج کی فکر کی مہلت بھی نہ ملی اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھربار کے جھگڑے سے آزاد رہے اور صرف علم کا ورثہ چھوڑا۔ عالم اسلام کی چوٹی کی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے، خصوصیت سے جامعہ استنبول سے طویل عرصہ تک متعلق رہے۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاولپور میں بھی ۱۲/ خطبات دیئے جو خطباتِ بہاولپور کے عنوان سے شائع ہوئے اور ان کا خوب صورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افضل اقبال نے کیا اور یہ The Emergence of Islam کے نام سے شائع ہوئے۔ میری نگاہ میں ڈاکٹر محمد حمیداللہ رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں میں پہلے اور آخری مستشرق (Orientalist) تھے۔ مستشرق میں ان کو اس لئے کہہ رہا ہوں کہ انہوں نے مستشرقین کے طریق تحقیق (Methodology) پر ایسی ہی قدرت حاصل کرلی تھی جیسی غزالی نے یونانی