کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 7
تاب ہے، نہ ہی حدود کے نفاذ سے ان کا اصل مقصود اسلامی معاشرے میں خوف و دہشت کی فضا پیدا کرنا ہے۔ اسلام میں حدود کے نفاذ کو اصلاحی تدابیر پر فوقیت یا اوّلیت بھی حاصل نہیں ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے دور میں جن دو تین خواتین و حضرات کو رجم کی سزائیں دی گئیں ، احادیث اور سیرت کی کتابوں میں ان کی تفصیلات موجود ہیں ۔ حضرت ماعز رضی اللہ عنہ اور حضرت غامدیہ رضی اللہ عنہا کے واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حتیٰ الامکان کوشش کی کہ کسی طرح ان سزاؤں کی تنفیذ مؤخر ہوجائے اور آپ کی خواہش تھی کہ یہ واقعات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نوٹس میں نہ لائے جاتے تو اچھا تھا۔ فقہائے اُمت کا اجماع ہے کہ جرم کے ثبوت میں معمولی سقم یا شبہ حدود کو ساقط کردیتا ہے۔ زنا کے ثبوت کے لئے اسلام نے چار عینی گواہوں اور تزکیۃ الشہود کی جو شرائط رکھی ہیں ، عام حالات میں اس کا پورا کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہاں تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی ہم یہ فرض کئے دیتے ہیں کہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو ان باتوں کا علم نہیں ہے۔ جب بھی پاکستان میں اسلامی حدود کے نفاذ کی بات ہوتی ہے، یہاں کا سیکولر اور مغرب زدہ طبقہ اس کی مخالفت میں آواز اُٹھاتا ہے۔ سرحد کی اسلامی حکومت کو بھی اس معاملے میں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ایسے سیاہ بخت افرا د جو اسلامی سزاؤں کو ’وحشیانہ‘ کہتے ہیں ، ان کی ہرزہ سرائی کا شدت سے نوٹس لینے کی بجائے اِعراض کرنازیادہ مناسب ہے۔ایسے لوگ اپنے خبث ِباطن کے اظہار پر عادتاً مجبور ہیں ۔ اسلامی حدود کے نفاذ کی غیر ضروری تشہیر سے اسلام کا فلاحی اور اصلاحی پہلو دب کر رہ جاتا ہے۔ اس سے عام آدمی کے ذہن میں بھی اسلامی نظام کا صحیح تصور دھندلا جاتا ہے۔ مغربی پریس جسے اسلامی نظام سے خدا واسطے کا بیر ہے، بھی اسلامی سزاؤں کے خلاف منفی پراپیگنڈہ کے ذریعے اسلام کے اِمیج (Image)کو مسخ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ طالبان کو اس ضمن میں جس طرح متعصبانہ پراپیگنڈہ کا نشانہ بننا پڑا، اس سے ہر شخص بخوبی واقف ہے۔ ہماری گزارش یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو اس بارے میں محتاط پالیسی اپنانی چاہئے۔ اسے یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اسلامی سزاؤں پر عمل درآمد حکومت ِسرحد کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔ سیشن جج اور دیگر ضلعی ماتحت عدالتیں انتظامیہ کے نہیں بلکہ ہائی کورٹ کے کنٹرول میں ہیں ۔ پھر ماتحت عدالتوں کی طرف سے دی گئی سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیل کی جاسکتی ہے۔