کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 69
یاد رفتگاں پروفیسر خورشیداحمد
ڈاکٹر محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ
ترکش مارا خدنگ ِ آخریں
برعظیم پاک و ہند کے علمی اور دینی اُفق کودرخشاں کرنے والے تمام ستارے ایک ایک کرکے ڈوب گئے…! اس سنہری سلسلے کا آخری تارہ٭ ڈاکٹرمحمد حمیداللہ رحمۃ اللہ علیہ مغرب کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سوگیا۔ انالله وانا اليه راجعون
محمد حمید اللہ رحمۃ اللہ علیہ ، ۱۶/ محرم الحرام ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹/ فروری ۱۹۰۸ء حیدر آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ دولت ِآصفیہ ہی میں ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک کے مراحل طے کئے اور عثمانیہ یونیورسٹی سے ، جو برعظیم کی تاریخ میں اُردو کے محوری کردار اور اپنی اعلیٰ علمی روایات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی تھی، ایم اے اور ایل ایل بی کی سندات امتیازی شان سے حاصل کرکے اسی جامعہ میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں ۔ تقسیم ملک سے کچھ قبل اعلیٰ تعلیم کے لئے جرمنی گئے اور بون (Boon) یونیورسٹی سے بین الاقوامی قانون کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر حمیداللہ رحمۃ اللہ علیہ کی یہی تحقیق تھی جو بعد میں ضروری اضافوں کے ساتھ ان کی شہرۂ آفاق تصنیفMuslim Conduct of State بنی۔ جرمنی سے فرانس منتقل ہوگئے اور سوربون (Sorbonne) یونیورسٹی سے ’عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت ِراشدہ میں اسلامی سفارت کاری‘ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ’ڈی لٹ‘ کی سند حاصل کی۔
اس زمانے میں سقوطِ حیدرآباد (۱۹۴۸ء) کا سانحہ رونما ہوا۔ اس کے بعد پھر ڈاکٹر حمیداللہ رحمۃ اللہ علیہ پیرس ہی کے ہوکر رہ گئے۔ میرے استفسار پر ایک باربتایا کہ میں دولت ِآصفیہ کے پاسپورٹ
٭ ڈاکٹر محمد حمید اللہ کو برصغیر کے ’ دبستان شبلی ‘ کی کہکشاں کے ستاروں میں سے آخری تارہ قرار دیا جانا زیادہ مناسب ہو گا کیونکہ اللہ کا شکر ہے کہ دوسرے دبستانان علمی کے کئی اکابر اب بھی موجود ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ان سایہ تا دیر اس امت پر قائم و دائم رکھنے ۔ آمین
( محدث)