کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 67
ہم آپ کی تحقیق کو درست تسلیم کرلیں تو ہمارا مذہب ہی باطل قرار پائے گا۔ ‘‘
اس سوال پر کہ آپ نے پیرس ہی کو کیوں اپنی مستقل رہائش کے لئے منتخب کیا ، ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایک تو ایسا تحقیقی ادارہ کہیں موجود نہیں ۔ دوسرے یہاں ۸۰ لاکھ اور ایک کروڑ کتابوں پر مشتمل ایسی لائبریریاں موجود ہیں جن کی کہیں نظیر نہیں ملتی۔ یہاں ایک ایک موضوع پر،خصوصاً عالم عرب پر بڑی لائبریریاں موجود ہیں جن میں عالم عرب سے متعلق ہر زبان میں کتابیں یکجا مل جاتی ہیں ۔
ڈاکٹر صاحب نے اسی تحقیقی و علمی ذوق کی بنا پر دیارِ مغرب کو اپنا مسکن بنایا اور اپنی ساری زندگی اسی ذوق کی نذر کردی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اتنا طویل عرصہ مغرب میں رہنے کے باوجود ان کی طرزِ زندگی یا ان کی فکر پر مغربیت کا ادنیٰ سا شائبہ تک نہیں ۔ اسی طرح عجز و انکساری بھی ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو رہے ہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ سادگی اور قناعت کو اپنایا۔ انہیں کئی دفعہ مختلف لوگوں کی طرف سے ہر طرح کے تعاون کی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے کبھی اس طرف دھیان نہ دیا۔ وہ کسی بھی قسم کی آسائش کو جنہیں آج کے دور میں ’ضروریات‘ تصور کیا جاتا ہے، غیر ضروری اور وقت کا ضیاع خیال کرتے تھے۔ انہیں حکومت ِپاکستان کی طرف سے کئی ایک پیش کشیں ہوئیں لیکن انہوں نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ جس کام میں مصروف ہیں ، وہ زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔
ڈاکٹر صاحب کو مشرق و مغرب کی نو زبانوں پر قدرت حاصل تھی۔ ان زبانوں میں اردو، انگریزی، فرانسیسی، عربی، جرمنی، اَطالوی، ترکی، روسی اور فارسی زبانیں شامل ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب مختلف جامعات میں تدریسی فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔ اس غرض سے وہ انقرہ کی ارضِ یوم یونیورسٹی میں لیکچر کے لئے ہر ہفتہ پیرس سے انقرہ جایا کرتے تھے۔
ڈاکٹر صاحب پیرس کے ایک تحقیقی مرکز سے وابستہ ہوئے اور ریٹائرمنٹ تک اسی ادارے سے منسلک رہے اور بعدازاں بھی اپنی علمی تحقیقی سرگرمیوں کو اسی طرح جاری رکھا۔ ان کی زندگی ’کام، کام اور صرف کام‘ کی عملی تفسیر ہے جس میں آرام نام کی کوئی شے نظر نہیں آتی۔ اور بلاشبہ ڈاکٹر صاحب نے علمی وتحقیقی، تبلیغی اور تدریسی میدان میں جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ،اس کے لئے کئی دماغ اور کئی زندگیاں درکار ہیں ۔ انہوں نے اپنے آپ کو حصول مقصد کے