کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 62
4. اس بارے میں چوتھی حدیث بعض اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ: ’’اہل عوالی کی ایک مسکین عورت تھی جو بہت عرصہ سے بیما رتھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پڑوسیوں میں سے جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، اس کی کیفیت معلوم کرتے اور حکم دیتے کہ اگر وہ مرجائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیئے بغیر اسے دفن نہ کریں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نمازِجنازہ پڑھا سکیں : ’’فتوفيت تلک المرأة ليلاً واحتملوها فأتوا بها مع الجنائز أوقال موضع الجنائز عند مسجد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ليصلی عليها رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کما أمرهم فوجدوه قد نام بعد صلاة العشاء فکرهوا أن يهجدوا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم من نومه فصلوا عليها ثم انطلقوا بها… الخ‘‘ ’’پس ایک رات یہ عورت مرگئی تو لوگ اسے جنازوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے یا راوی نے یہ کہا کہ اسے مسجد ِنبوی کے پاس جنائز کی جگہ لائے تاکہ آں صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نمازِ جنازہ پڑھا سکیں ، جیسا کہ آں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا تھا۔ جب لوگوں نے پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشا کی نماز کے بعد سوگئے ہیں تو انہیں آں صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگانا بُرا محسوس ہوا، پس ان لوگوں نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور اسے لے کر چلے گئے…الخ‘‘ خلاصۂ بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفاے راشدین، ازواجِ مطہرات اور صحابہ کرام کے عمل نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع، اُمت کے متواتر عمل، محدثین، جمہور فقہا اور علماے سلف و خلف کی بے شمار آرا اس بات کی متقاضی ہیں کہ مسجد کے اندر بلاعذر نمازِ جنازہ پڑھنے میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے، بلکہ ایسا کرنا بہرصورت شرعاً درست وجائز ہے۔ نہ اس امر میں کسی قسم کی کوئی کراہت ہے اورنہ قباحت، نیز یہ کہ مانعین کے پاس اپنے موقف کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس دلیل موجود نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ مسجد کے باہر کسی مقام کو جنائز کے لئے مخصوص و مقرر کرلیا جائے تو اس جگہ ہی نمازِ جنازہ پڑھنا افضل ہے کہ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول تھا، لیکن اگر کوئی شخص کبھی کبھار تعلیم اُمت کی نظر سے یا اس مردہ سنت کو زندہ کرنے کی نیت سے یا اس عمل کو بھی سنت ِنبوی سمجھ کر مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کرے تو اس کا یہ عمل مستحسن ہے اور ان شاء اللہ اس کے لئے وہ ماجور ہوگا، واللہ اعلم بالصواب!