کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 61
نمازِ جنازہ کے لئے دورِ نبوی میں مخصوص جگہ 1. جہاں تک مسجد کے باہر نمازِ جنازہ کے لئے کسی جگہ کو مخصوص ومقرر کرنے کا تعلق ہے تو اس بارے میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے یوں روایت کی ہے: ’’إن اليهود جاء وا إلی النبی صلی اللہ علیہ وسلم برجل منهم وامرأة زنيا فأمر بهما فرجما قريبًا من موضع الجنائز عند المسجد‘‘ (۱۱۹) ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی اپنوں ہی میں سے ایک مرد اور ایک عورت کو لے کر حاضر ہوئے جنہوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں حکم فرمایا لہٰذا انہیں مسجد کے قریب جنازوں کی جگہ کے پاس سنگسار کیا گیا۔‘‘ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۵۲ھ) فرماتے ہیں : ’’ابن بطال رحمۃ اللہ علیہ نے ابن حبیب رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ مدینہ منورہ میں جنائز کی نماز پڑھنے کی جگہ مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑی ہوئی مشرق کی جانب تھی۔‘‘(۱۲۰) علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے عہد ِنبوی میں مسجد نبوی سے باہر جنائز کے لئے ایک جگہ مخصوص ہونے کی تائید میں چار احادیث ذکر کی ہیں جن میں سے پہلی حدیث تو یہی حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مذکورہ بالا’صحیح البخاری‘ والی حدیث ہے۔ 2. دوسری حدیث حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے: مات رجل، فغسلناه وکفناه وحنطناه ووضعناه لرسول الله صلی اللہ علیہ وسلم حيث توضع الجنائز عند مقام جبريل ثم آذنا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بالصلاة عليه، فجاء معنا الخ(۱۲۱) ’’ایک شخص مرگیا تو ہم نے اسکو غسل دیا، اس کو کفن پہنایا اور اسے خوشبو لگائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے اسے مقامِ جبریل کے پاس جنازوں کے رکھے جانے کی جگہ رکھ دیا۔ پھر ہم نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسکی نماز جنازہ کیلئے بلایا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ تشریف لائے، الخ‘‘ 3. تیسری حدیث محمد بن عبداللہ بن جحش سے مروی ہے، فرماتے ہیں : ’’کنا جلوسا بفناء المسجد حيث توضع الجنائز ورسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جالس بين ظهرانينا فرفع رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم بصره إلی السماء … الخ‘‘(۱۲۲) ’’ہم مسجد کے سامنے کھلی اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے جس جگہ جنازے رکھے جاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے۔ پس رسو ل اللہ ا نے اپنی نگاہ مبارک آسمان کی طرف اٹھائی… الخ‘‘