کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 6
دیے گئے اپنے مشورے کو متحدہ مجلس عمل کی قیادت کے لئے دوبارہ دہرایا ہے:
’’تدریج کا عمل اختیار کرنا چاہئے۔ کیونکہ یہی اُصول، اُسلوب اور طریقہ کار اسلام، قرآن اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین کا رہا ہے۔‘‘
(اگست، ستمبر ۲۰۰۲ء)
سرحد کی مجلس عمل کی حکومت کی تحدیدات اور مسائل کو سامنے رکھا جائے، تو اس کے لئے اس کے علاوہ کوئی اور چارۂ کار باقی نہیں رہتا کہ یہ تدریجی اور اصلاحی حکمت ِعملی پر عمل پیرا ہو۔ انقلابی اقدامات اٹھانے کے لئے اسے ویسے بھی مطلوبہ ریاستی قوت میسر نہیں ہے۔
4. حدود کا نفاذ اور حکیمانہ پالیسی
گذشتہ دنوں صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ جناب اکرم درانی نے ایک اخباری بیان میں کہا کہ دو ماہ کے عرصہ میں اسلامی نظام نافذ کردیا جائے گا اور اسلامی سزائیں بھی نافذ کی جائیں گی۔ جنوری کے دوسرے ہفتہ میں لاہور تشریف لانے والے سرحد اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سرحد میں عنقریب مجرموں کو اسلامی حدود کے مطابق سزائیں دی جائیں گی۔ اگرچہ بعد میں مجلس عمل کے کسی ذمہ دار نے وضاحت بھی کی کہ حدود کا نفاذ ہی ان کی حکومت کی پہلی ترجیح نہیں ہے، ان کے نزدیک سماجی انصاف اور انسانی آزادیوں کے متعلق اسلام کے روشن اصول بھی بے حد اہم ہیں ۔
جب بھی کسی اسلامی ملک میں یا صوبہ میں کوئی اسلام پسند جماعت برسراقتدار آتی ہے تو اس کے ذمہ داران سب سے پہلے جس بات کا اعلان کرتے ہیں وہ اسلامی سزاؤں یا حدود و تعزیرات کے نفاذ کا والہانہ وعدہ ہوتا ہے۔ اسلامی نظام کے نفاذ کے منصوبوں میں بوجوہ اس معاملے کو اس قدر ترجیح اور اوّلیت دی جاتی ہے کہ اسلامی نظام کا خواب دیکھنے والے سادہ لوح عوام بھی بجا طور پر ایسی حکومتوں سے یہ توقع کرنا شروع کردیتے ہیں کہ آتے ہی وہ مجرموں کی پیٹھوں پر کوڑے برسانے کی مشق کا آغاز کریں گے اور چوری کے مرتکب حضرات کے ہاتھ کٹ کٹ کر گریں گے۔ بدکاری کے مرتکب حضرات کی سنگساری کے عام منظر معاشرے میں دہشت اور خوف کی ایسی فضا پیدا کریں گے کہ معاشرہ ایسے خبیث افراد کے وجود سے پاک ہوجائے گا، وغیرہ۔ جن حضرات نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم کے مبارک اَدوار کا بنظر غائر مطالعہ کیا ہے اور اسلام کی حدود و تعزیرات کی حقیقی منشا کا سراغ لگانے کی معمولی سعی کی ہے، انہیں ضرور معلوم ہوگاکہ شارعِ اسلام مجرموں کی پیٹھوں کو لہولہان کرنے کے لئے اس قدر بے