کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 53
کراہت کا جو سبب بتایا جاتا ہے وہ ان کے دعویٰ کے مطابق میت کا نجس ہونا ہے، لیکن یہ دعویٰ باطل ہے کیونکہ مؤمن نہ زندہ نجس ہوتا ہے اور نہ مردہ۔‘‘(۸۵) کسی مسلمان کی میت کی عدمِ نجاست کی بابت چند احادیث رسول بھی ملاحظہ فرما لیں : 1. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرماتے ہیں کہ میری ملاقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی، لیکن اس وقت میں ’جنبی‘ (ناپاک) تھا، چنانچہ میں غسل کرنے کیلئے چلا گیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تم کہاں رہ گئے تھے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إن المؤمن لا ينجس‘‘(۸۶) 2. بعض دوسری روایات میں ’’إن المؤمن لا ينجس‘‘(۸۷) کے الفاظ بھی مروی ہیں ۔ 3. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لا تنجسوا موتاکم، فان المسلم ليس ينجس حيا ولا ميتا‘‘(۸۸) 4. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ایک دوسری روایت میں ’المسلم‘کی بجائے ’المؤمن‘ کے الفاظ بھی مروی ہیں ، چنانچہ منقول ہے: ’’المؤمن حياً وميتاً‘‘ (۸۹) 5. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث میں ہے: ’’إن ميتکم يموت طاهرًا‘‘ (۹۰) 3. میت کو مسجد سے باہر رکھ کر مسجد میں نماز جنازہ ادا کرنے کا دعویٰ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۵۲ھ)، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ (۱۲۵۰ھ) اور علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۲۹ھ) فرماتے ہیں کہ ’’بعض لوگ مسجد میں حضرت سہیل رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ کو اس بات پر محمول کرتے ہیں کہ ان کی میت مسجد سے باہر رکھی گئی تھی اور نمازی مسجد کے اندر تھے اور یہ چیز بالاتفاق جائز ہے۔ لیکن ان کا یہ قول محل نظر ہے، کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس حکم پر جب لوگوں نے نکارت کی تھی، جو حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کے جنازہ کو آپ رضی اللہ عنہ کے حجرہ کے قریب سے لے کر گزرنے سے متعلق تھا تاکہ وہ اس پر نمازِ جنازہ پڑھ سکیں ، تو آں رضی اللہ عنہا نے اسی واقعہ سے اپنے موقف پراستدلال کیا تھا۔ اور بعض لوگوں کی دلیل یہ ہے کہ یہ عمل متروک قرار پایا ہے کیونکہ جن لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس عمل پر نکارت کی تھی وہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے، لیکن ان کے اس قول کا ردّ یوں ہے کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان لوگوں کی نکارت کا انکار کیا تو ان لوگوں نے اس کو تسلیم کرلیا تھا۔ پس یہ چیز اس پر دلالت کرتی ہے کہ آں رضی اللہ عنہا کو وہ حکم یاد تھا جو کہ وہ صحابہ رضی اللہ عنہم (معترضین) بھول گئے تھے۔ اور امام