کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 51
الغرض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے منسوخ ہونے کا مذکورہ بالا دعویٰ قطعاً بے بنیاد ہے۔ اس کے بے بنیاد ہونے کے جو دلائل امام ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کئے ہیں ، ان سے بہتر جواب اور کیا ہوسکتاہے؟
ان دلائل کے علاوہ نسخ کی چند شروط محققوں اور اصولیوں کے ہاں ضروری ہیں جن کی عدم موجودگی کی صورت میں نسخ کا دعویٰ باطل قرار پاتا ہے۔ اب ہم یہ جائزہ لیں گے کہ نسخ حدیث کا مذکورہ دعویٰ کیا ان شرائط کو پورا کرتا ہے یا نہیں ؟ پس نسخ کی پہلی شرط یہ ہے کہ ناسخ و منسوخ کے لئے لازم ہے کہ وہ دونوں ایک ہی محل میں وارد ہوں ۔(۷۵) دوم یہ کہ نسخ کا دعویٰ اسی وقت قابل قبول ہوتا ہے جبکہ تاریخ کا علم ہوا اورجمع و تطبیق محال ہو۔(۷۶)سوم یہ کہ نسخ بلا دلیل ثابت نہیں ہوتا۔(۷۷ ) چہارم یہ کہ نسخ احتمال سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔(۷۸) پنجم یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کئے جانے والے عمل کو مجرد ترک کردینا بھی اس کے نسخ کے جواز کی دلیل نہیں ہے۔(۷۹) ششم یہ کہ نسخ خبر میں داخل نہیں ہوتا۔(۸۰ ) ہفتم یہ کہ اجمال منسوخ نہیں ہوتا۔(۸۱ ) اور ہشتم یہ کہ بقول امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ :نسخ کسی امر کی ممانعت یا کسی ممانعت کو ترک کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے۔(۸۲) وغیرہ اور ہر شخص بخوبی جان سکتا ہے کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا مذکورہ بالانسخ کا دعویٰ ان شرائط میں سے کسی بھی شرط کو پوری نہیں کرتا، بلکہ صرف احتمال کی بنیاد پرمبنی ہے، اور امام موصوف رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق یہ بات بہت مشہور ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ خلافِ اصول محض احتمال کی بنا پر کسی چیز کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کردیتے ہیں ، چنانچہ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ (۸۵۲ھ) فرماتے ہیں : ’’الطحاوی يکثر من إدعاء النسخ بالاحتمال‘‘(۸۳)
میں مزید کہتا ہوں کہ امام طحاوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (۳۲۱ھ) اور دیگر مانعین کا یہ کہنا بھی قطعاً بے دلیل بات ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اعتراض کیا تھا، وہ عام صحابہ رضی اللہ عنہم تھے۔ اگر مانعین کے پاس ان معترض صحابہ رضی اللہ عنہم کے اسمائے گرامی موجود ہوں تو پیش کریں ۔ جس طرح مانعین دعویٰ کرتے ہیں ، اسی طرح میں بھی یہ کہتا ہوں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پراعتراض کرنے والے لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم نہیں بلکہ دو چار تابعین یا تبع تابعین یا پھر صغار صحابہ رہے ہوں گے۔ صغار صحابہ رضی اللہ عنہم اس لئے کہ اگر ان معترضین کا شمار کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دو خلفا کا عمل یقینا ذہن نشین ہوتا، لہٰذا وہ ایسی بات ہر گز زبان پر نہ لاتے۔
ہماری اس بات کو دو طرح سے تقویت ملتی ہے :