کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 50
فقہ واجتہاد غازی عزیر
[قسط ۲]
مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے کا حکم
مَانِعین کے بعض عقلی دلائل اور ان کا جواب
اب ہم مانعین کی طرف سے پیش کئے جانے والے بعض عقلی دلائل اور ان کا علمی جائزہ پیش کرتے ہیں :
1. نسخ حدیث کا دعویٰ
امام ابن قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
’’امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو اپنا مسلک بنایا ہے جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث دوسرے مسلک کی ترجمان ہے۔ پس فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھانا منسوخ ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دو افعال میں سے وہ دوسرے فعل کو اس دلیل کے ساتھ ترک کرتے ہیں کہ عام صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایسا کرنے پر نکارت کی تھی اور وہ لوگ ایسا ہرگز نہ کرتے اِلا یہ کہ جو چیز منقول ہوئی ہے، اس کے خلاف وہ علم رکھتے ہوتے۔ لیکن ایک جماعت نے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کو ردّ کیا ہے جن میں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ شامل ہیں ۔ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے منسوخ ہونے کی دلیل ہوتی تو وہ اس کا تذکرہ اس دن ضرور کرتے جس دن کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھی، یا اس دن جبکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھی ،یا اس دن جبکہ لوگوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسجد میں جنازہ لانے کے حکم پر نکارت کی تھی، یا پھر اس وقت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس کا ذکر ضر ور کرتے جبکہ اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی تھی۔ جن لوگوں نے حضرت عائشہ کے فعل پر نکارت کی تھی یہ تو وہ لوگ تھے جن کو اس امر کے جواز کا علم نہ تھا، چنانچہ جب آں رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں حدیث بیان کی تو سب کے سب خاموش گئے اور کسی نے نہ اس حدیث کا انکار کیا اور نہ ہی کسی دوسری حدیث سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ اختلاف کیا۔‘‘ (۷۴ )