کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 5
ہیں ، ان کے ساتھ بحث و جدل کی بجائے مروّت اور روا داری کا برتاؤ کیا جائے اور ان کی تالیف قلبی کی ہر ممکن کوشش روا رکھی جائے۔ اگر مناسب ہو تو مختلف علاقہ جات کا سروے کرایا جائے اور ان علاقوں کی اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے ذہنی تیاری اور سازگاری کے لحاظ سے درجہ بندی کردی جائے اور پھر ارتقائی انداز میں مرحلہ وار نفاذ کی حکمت ِعملی وضع کرلی جائے۔
3. تدریجی حکمت ِعملی
’اسلامی انقلاب‘کا آدرش بلا شبہ بہت ہی دل فریب ہے۔ گذشتہ نصف صدی میں اسلامی تحریکوں کے کارکنوں کی اس مقصد سے وابستگی کسی حد تک ’اسلامی رومانویت‘کی شکل اختیار کرچکی ہے جس میں عقل و خرد کے مقابلے میں جوش و خروش کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اسلامی انقلابی ایک ہی ہلے میں پرانے نظام کو تلپٹ کرکے اسلامی نظام کی بنیادیں رکھنا چاہتے ہیں ۔ ان کے خلوص اور نیک جذبات کے احترام کے باوجود یہ کہنے کی جسارت کی جارہی ہے کہ اسلام اشتراکیت کی طرح کسی خونیں انقلاب کا مدعی ہے اور نہ اس میں پہلے سے قائم معاشرے کی فوری اُکھاڑ پچھاڑ کا کوئی تصور ہے۔ اسلام پہلے اصلاحی طریقہ اختیار کرکے لوگوں کے دلوں کوبدلنے کی سعی کرتا ہے۔ اسلام انقلابی اور ہنگامی تبدیلی کی بجائے تدریجی اور ارتقائی تبدیلی کو پسند کرتا ہے۔ قلوب و اذہان کی تبدیلی کے بغیرمحض سیاسی قوت کے بل بوتے پریہ توقع رکھنا کہ اسلامی شریعت کے نفاذ کی منزل قریب آجائے گی، صرف ایک خام خیالی ہے۔
سختی اورتشدد کے ذریعے فوری طور پر مزاحمت کی سرکوبی تو شاید کی جاسکے، مگر یہی مزاحمتی گروہ آنے والے سالوں میں اتنی شدت سے دوبارہ سر اُٹھاتے ہیں کہ اسلامی انقلاب کی تمام قوتِ نافذہ بھی ان کی مزاحمت کو کچل نہیں سکتی۔ ساری قوتیں مثبت کاموں سے ہٹ کر انہی منفی قوتوں کی بیخ کنی پر صرف ہوتی ہیں اور اسلامی انقلاب اصل ٹریک سے ہٹ جاتا ہے۔ اسلامی انقلاب کے داعی مفکرین کی نگاہ سے بھی یہ حقیقت مخفی نہیں رہی۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’اگر کوئی اسلامی حکومت قائم ہو تو یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ چھوٹتے ہی مثالی نظام کی طرف پلٹ جائے گی … اسلامی نظام توقائم ہی اس معاشرے میں ہوا تھا جس کے اندر سب سے پہلے ایمان کو مستحکم کیا گیا تھا۔ پھر اسی ایمان کی مضبوط بنیاد پر پورے اخلاقی نظام کی، پورے معاشرتی نظام کی، پورے معاشی نظام کی، پورے سیاسی نظام اور پورے قانونی نظام کی عمارت اُٹھائی گئی تھی۔‘‘ (ترجمان القرآن: نومبر ۲۰۰۲ء )
ماہنامہ ’الحق‘ جو جامعہ حقانیہ ،اکوڑہ خٹک کا آرگن ہے،نے اپنے اداریے میں طالبان کو