کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 48
سوال:کیا حج کے ساتھ عمرہ کیا جا سکتا ہے یا عمرہ کے لئے الگ سفر اختیار کیا جائے؟ اگر کیا جا سکتا ہے تو اسے حج کی کون سی قسم کہیں گے ؟ جواب:آدمی کو چاہئے کہ جب حج کے لئے سفر پرروانہ ہو تو میقات پر احرام باندھتے وقت عمرہ کی نیت کرلے ،بعد ازاں عمرہ ادا کرکے اِحرام کھول دے۔پھر آٹھ ذوالحجہ کو اپنی رہائش گاہ سے حج کا احرام باندھ کر منیٰ کی طرف روانہ ہوجائے۔ شرعی اصطلاح میں اس کا نام ’حج تمتع‘ ہے متعدد اہل علم کے نزدیک حاجی کے ساتھ ہدي (قربانی) نہ ہونے کی صورت میں حج کی افضل ترین قسم یہی ہے۔ اس طرح ایک ہی سفر میں حج اور عمرہ بآسانی دونوں ادا ہوجائیں گے۔ سوال:جنین میں روح پڑنے سے پہلے اسقاطِ حمل سے گناہ ہوتا ہے یا نہیں ؟ جواب:مذکورہ صورت میں چونکہ جسمانی طور پر بچہ کے تخلیقی مراحل طے ہوچکے ہیں ، لہٰذا اسقاطِ حمل ناجائز ہے بلکہ خلقت کے آغاز میں بھی ناجائز ہے۔ البتہ ضرورت کی بنا پر فقہاء کرام نے چالیس دن سے قبل اخراجِ نطفہ کی اجازت دی ہے۔ (فتاویٰ اسلامیہ :۳/۱۸۹) ہمارے استاد علامہ محمد امین شنقیطی فرماتے ہیں : إذا مجّت الرحم النطفة فی طورها الأول قبل أن تکون علقة، فلا يترتب علی ذلک حکم من أحکام إسقاط الحمل، وهذا لاخلاف فيه بين العلماء (تفسیر اضواء البیان :۵/۳۲) ’’ اگر رحم میں نطفہ کو پہلے ہی مرحلہ میں یعنی علقہ (جما ہوا خون) بننے سے پہلے ضائع کردیا جائے تو اس پر اسقاط حمل کا حکم لاگو نہیں ہوگا، اس بارے میں علما میں کوئی اختلاف نہیں ۔‘‘ نیز وسائل کی کمی کی وجہ سے اولاد کی تعداد میں کمی کرنا شرعاً ناجائز ہے کیونکہ یہ فعل انسانی فطرت کے خلاف ہے جو اللہ نے انسان میں ودیعت کر رکھی ہے اور شرع نے جس کی تحریض وترغیب دی ہے ۔ نیز یہ فعل جاہلی اعمال میں سے ہے۔ اس کا ارتکاب کرنا بالخصوص فقروفاقہ کے ڈر سے ،گویا اللہ کے بارے میں سوء ظن اور عدمِ اعتماد کا اظہار ہے۔قرآن میں ہے: ﴿ إِنَّ ﷲَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُوْالْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ﴾’’اللہ ہی تو رزق دینے والا اور زور آور مضبوط ہے۔ ‘‘ نیز فرمایا : ﴿ وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِيْ الْاَرْضِ إِلاَّ عَلٰی ﷲِ رِزْقُهَا﴾’’ اور زمین پر چلنے پھرنے والا کوئی نہیں ،مگر اس کا رزق اللہ کے ذمہ ہے۔‘‘ (ہود: ۶) سوال:نماز اور دیگر ذمہ داریوں کا خیال رکھتے ہوئے،جواکے بغیر از راہ ِتفریح تاش،