کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 47
لہٰذا اس عمل سے احتراز ضروری ہے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ سب حصہ دار گائے پالنے والے کو باقاعدہ الگ سے مزدوری دیں ۔
سوال:کیا صاحب ِاستطاعت پرحج کی طرح عمرہ بھی فرض ہے؟
جواب: عمرہ کے وجوب میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وجوب کے قائل ہیں ۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح بخاری میں وجوب کو ا ختیار کیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں : باب العمرة: وجوب العمرة وفضلها: وقال ابن عمر: ليس أحد إلا وعليه حجة وعمرة ’’ابن عمر فرماتے ہیں :ہر ایک پر حج اور عمرہ فرض ہے ‘‘ اس تعلیق کو ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ،دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ علیہ نے ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ کے واسطے سے موصول بیان کیا ہے۔
حنفیہ اور مالکیہ کا مشہور قول یہ ہے کہ عمرہ نفلی عبادت ہے، لیکن جن چند روایات سے انہوں نے استدلال کیا ہے، ان میں سے بیشتر ضعیف ہیں ۔
وجوب ِعمرہ کے بارے میں کئی احادیث ہیں جن میں سے ایک حدیث میں ہے کہ جبرائیل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الاسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلوٰة وتؤتي الزکاة وتحج البيت وتعتمر وتغتسل من الجنابة وتتم الوضوء وتصوم رمضان‘‘
’’اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں اور تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور بیت اللہ کا حج اور عمرہ کرے، غسل جنابت کرے اور وضو پورا کر ے اور رمضان کے روزے رکھے ۔ ‘‘
اس حدیث کو ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ اور دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے ۔ دارقطنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: ہذا إسناد ثابت صحیح ’’یہ اسناد صحیح ثابت ہے۔ ‘‘اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے آپ ا سے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا عورتوں پر بھی جہاد ہے۔
فرمایا: عليهن جهاد لاقتال فيه: الحج والعمرة
’’ان کے ذمہ ایسا جہاد ہے جس میں لڑائی نہیں ، اوروہ جہاد حج اور عمرہ ہے۔‘‘
یہ حدیث مسنداحمد اور ابن ماجہ میں بسند ِصحیح موجود ہے۔ اور ترمذی میں ہے: ’’تابعوابين الحج والعمرة… الخ‘‘ (ترمذی مترجم: ۱/۲۹۹)
لہٰذا راجح مسلک یہ ہے کہ عمرہ اور حج کو پے در پے بجا لاؤ۔