کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 43
حضرت طلیب رضی اللہ عنہ بن عمیر کی دعوت پر ان کی والدہ ارویٰ رضی اللہ عنہا بنت عبدالمطلب نے اسلام قبول کیااور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی والدہ اُم الخیر رضی اللہ عنہا بھی ان کی کوششوں سے ہی مشرف بہ اسلام ہوئیں ۔
دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگوں کو اپنے ذاتی کردار اور محاسن سے متاثر کرکے اسلام کی طرف بلایا جائے۔ جیساکہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شخصی خوبیوں کی وجہ سے لو گ ان کی مجلس میں آتے تو آپ ان لوگوں کواسلام کی دعوت دیتے اور جب ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہ کو ہجرت پر مجبور کیاگیا تو ابن د غنہ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ کو واپس لے آیا :
إن مثلک لا يخرج ولا يخرج، فإنک تکسب المعدوم وتصل الرحم، وتحمل الکل، وتقری الضيف وتعين علی نوائب الحق فأنا لک جار، وارجع واعبد ربک ببلدک (۵۱)
’’اے ابو بکر! تیرے جیسے آدمی کو نہیں نکالا جانا چاہئے۔ آپ رضی اللہ عنہ تو مفلس اور نادار کے لئے مال کماتے ہیں ،صلہ رحمی کرتے ہیں ،لوگوں کابوجھ اٹھاتے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں اور جو کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں ، ان کی مدد کرتے ہیں ؛میں آپ رضی اللہ عنہ کو پناہ دیتا ہوں ۔آپ رضی اللہ عنہ اپنے شہر لوٹ جائیے اور آزادی سے اپنے ربّ کی عبادت کیجئے۔‘‘
چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئے اور آپ رضی اللہ عنہ کی دعوت پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ابن ہشام نے پچاس سے زائد صحابہ کے نام گنوائے ہیں جنہوں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کی دعوت اور تحریک پر اسلام قبول کیا۔(۵۲)
مکی عہد ِنبوت میں تبلیغ اسلام کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اسلام سرزمین مکہ تک محدود نہ رہا بلکہ بہت جلد جزیرہ نمائے عرب کے مختلف علاقوں میں اسلام کی گونج سنائی دینے لگی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کوششوں سے قبیلہ غفار،قبیلہ ازدشنوء ۃ،قبیلہ دوس اور یثربی قبائل اوس وخزرج کے علاوہ کئی دیگر قبائل میں بھی اسلام پھیل گیا،بلکہ ہجرتِ حبشہ کی بدولت اب اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اہل حبشہ کے لئے بھی کسی تعارف کی محتاج نہ رہی تھی۔ہجرتِ مدینہ کے وقت مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد یثرب اور دیگر کئی قبائل میں موجود تھی۔
اسلام کی اس عالمگیر اشاعت میں یقینی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ان مبلغ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کوششیں بھی قابل ذکر ہیں جنہوں نے دعوتِ اسلام کے پھیلاؤمیں گراں قدر خدمات انجام