کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 42
عقبہ میں جن باتوں کااقرار کیاتھا، ان پر عمل کی تلقین وتاکید کی جاتی تھی۔چنانچہ اس درسگاہ کے ایک طالب علم حضرت براء رضی اللہ عنہ بن عازب کا بیان ہے :
فما قدم حتی قرأت(سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ) فی سور من المفصّل(۴۹)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے ہی میں نے ’طوال مفصل‘٭ کی کئی سورتیں یاد کرلی تھیں ۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو انصار نے حضرت زید رضی اللہ عنہ بن ثابت کو بڑے فخر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیااور عرض کیا :
يا رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم ! هذا غلام من بنی النجار معه مما أنزل اللّٰه عليک بضع عشرة سورة، فأعجب ذلک النبي صلی اللہ علیہ وسلم (۵۰)
’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اس لڑکے کا تعلق بنو النجار سے ہے،جوکلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے، اس کو اس میں سے دس سے زائد سورتیں یاد ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر خوشی کا اظہار فرمایا۔‘‘
یہ درسگاہیں دن رات،صبح وشام کی قید سے آزاد تھیں اور ہر شخص ہر وقت ان سے استفادہ کرسکتاتھا۔
خلاصۂ بحث
مکی دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دعوتی سرگرمیوں کے بارے میں بہت کم معلومات ملتی ہیں ، تاہم بعض منتشر معلومات سے اس قدر ضرور واضح ہوجاتا ہے کہ کارِ نبوت کی انجام دہی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھرپور معاونت کی اور حق کی تبلیغ میں انہوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہر تکلیف اور مصیبت کا بڑی خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔
مکی دور کے ابتدائی سالوں میں اشاعت ِ اسلام کاایک طریقہ تو یہ تھا کہ نبوی ہدایت کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنے اپنے خاندان اور اہل خانہ کو اسلام کی دعوت دیتے تھے جس کے نتیجہ میں کئی لوگوں نے اسلام قبول کیا۔چنانچہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ بن یاسر اسلا م لائے تو تمام گھر والوں کو بھی اسلام کی دعوت پیش کی جس کے نتیجے میں ان کے تمام اہل خانہ نے اسلام قبول کرلیا۔اسی طرح
٭ قرآن مجید کی ساتویں منزل یعنی سورۃ الحجرات سے سورۃ الناس تک کی سورتوں کو ’مفصل‘ کہتے ہیں ۔