کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 41
الخضمات کے مرکز سے ان کا خصوصی رابطہ تھا۔ اس زمانے میں مدینہ منورہ کے مختلف علاقوں اور قبائل میں تدریسی وتعلیمی مجالس برپارہتی تھیں ۔خاص طور پر بنو نجار،بنو عبدالاشہل،بنوظفر،بنو عمرو بن عوف،بنو سالم وغیرہ کی مساجد میں علمی مجالس کا انتظام تھااور عبادہ رضی اللہ عنہ بن صامت،عتبہ رضی اللہ عنہ بن مالک،معاذ رضی اللہ عنہ بن جبل،عمر رضی اللہ عنہ بن سلمہ،اسید رضی اللہ عنہ بن حضیراور مالک رضی اللہ عنہ بن مویرت ان کے امام ومعلم تھے۔(۴۶) نصابِ تعلیم ان درسگاہوں کے نصاب ِ تعلیم کے حوالے سے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت تک عبادات میں صرف نماز فرض ہوئی تھی لہٰذا یہاں پر زیادہ تر نماز کے احکام ومسائل، قرآن اور اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی تھی اور اسی طرح وہ اخلاقیات جن پر بیعت ِ عقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے مردوخواتین، سب کو بیعت کیاتھا،کی تعلیم دی جاتی تھی ۔عبادۃ رضی اللہ عنہ بن صامت اس بیعت کے بارے میں بیان کرتے ہیں : بايعنا رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم ليلة العقبة الأولٰی علی أن لا نشرک باللّٰه شيئًا، ولا نسرق، ولا نزنی، ولا نقتل أولادنا، ولا نأتی ببهتان نفتريه من بين أيدينا وأرجلنا،ولا نعصيه فی معروف(۴۷) ’’ہم نے بیعت ِعقبہ اولیٰ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت اس چیز پر کی کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کریں گے،نہ چوری کریں گے،نہ زنا کریں گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گے،نہ کسی پر بہتان لگائیں گے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معروف میں نافرمانی کریں گے۔‘‘ چنانچہ ان درسگاہوں میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ان ہی اخلاقی امور کی تعلیم وتربیت دی جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر کو اہل مدینہ کے ساتھ روانہ فرمایا تو ان کویہ حکم دیا تھا : أن يقرأهم القرآن، ويعلّمهم الاسلام، ويفقّههم فی الدين(۴۸) ’’ان کو قرآن پڑھائیں ،اسلام کی تعلیم دیں اور ان میں دین کی سمجھ پیدا کریں …‘‘ اس مدت میں جس قدر قرآن نازل ہوچکا تھا، ان درس گاہوں میں اس کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔اور عام طور پر آیات و سورتیں زبانی یاد کرائی جاتی تھیں ۔انصارنے بیعت ِ