کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 40
تھے۔اپنے قبیلے کے نقیب تھے،ایک روایت کے مطابق وہ’نقیب النقباء‘بھی تھے۔یہ دونوں حضرات قرآن کی تعلیم اور اسلام کی اشاعت میں ایک دوسرے کے شریک تھے۔حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر قرآن کی تعلیم کے ساتھ اوس اور خزرج دونوں قبائل کی امامت بھی کرتے تھے اور جب ایک سال کے بعد بیعت ِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر اہل مدینہ کو لے کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو ان کا لقب ’مقریٔ المدينه ‘یعنی معلم مدینہ مشہور ہوچکا تھا۔(۴۲) حضرت اسعد رضی اللہ عنہ بن زرارہ نے جمعہ کی فرضیت سے پہلے ہی مدینہ میں نمازِ جمعہ کااہتمام فرمایا۔نمازِ جمعہ کا اجتماع بنی بیاضہ کی جگہ نقیع الخضمات میں ہوتا تھا۔(۴۳) گویانقیع الخضمات کی یہ درسگاہ صرف قرآنی مکتب اور مدرسہ ہی نہیں تھی، بلکہ ہجرت سے پہلے مدینہ میں اسلامی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیر اوس وخزرج کے اس مشترکہ اجتماع کی امامت کیاکرتے تھے۔(۴۴)اسی لئے نمازِ جمعہ کے قیام کی نسبت بعض روایتوں میں ان کی طرف کی گئی ہے۔(۴۵) اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکے ہمراہ ابن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہا کو بھی مدینہ روانہ فرمایا تھا لیکن چونکہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکو خاص طور پر تعلیم کے لئے بھیجا تھا، اس لئے اس درسگاہ کی تعلیمی سرگرمیوں میں ابن اُمِ مکتوم رضی اللہ عنہا کا تذکرہ نہیں آتا۔ ویسے بھی ابن اُمّ مکتوم رضی اللہ عنہا نابینا ہونے کی وجہ سے محدود پیمانے پر ہی تبلیغی ودعوتی خدمات سرانجام دے سکتے تھے۔ نقیع الخضمات کی اس درسگاہ اور اسلامی مرکز کی وجہ سے مدینہ کے یہودیوں کے دینی وعلمی مرکز’بیت المدارس‘کی حیثیت کم ہوگئی، جہاں جمع ہوکر یہود ِمدینہ درس وتدریس،تعلیم وتربیت اور دعا خوانی کے ذریعہ اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھتے تھے۔ اوس وخزرج یہودیوں سے بے نیاز ہوکر اپنے علمی ودینی مرکزسے وابستہ ہوگئے۔اسلام سے قبل اوس وخزرج میں پڑھنے لکھنے کا رواج بہت کم تھا اور اس معاملہ میں وہ یہودیوں کے محتاج تھے، البتہ چند لوگ لکھنا جانتے تھے۔ان میں رافع رضی اللہ عنہ بن مالک زرقی،زید رضی اللہ عنہ بن ثابت،اُسید رضی اللہ عنہ بن حضیر،سعد رضی اللہ عنہ بن عبادہ،اُبی رضی اللہ عنہ بن کعب وغیرہ تھے۔ ان میں سے اکثر نے ہجرت سے پہلے ہی اسلام قبول کرلیا اور وہ اب بڑی سرگرمی سے مسلمانوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کررہے تھے۔نقیع