کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 37
2 قبا کی درسگاہ دوسری درسگاہ مدینہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پرمقامِ قبا میں تھی،جہاں بعد میں مسجد کی تعمیر ہوئی۔ بیعت ِعقبہ کے بعد بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن میں ضعفاء اسلام کی اکثریت تھی، مکہ سے ہجرت کرکے مقامِ قبا میں آنے لگے اور قلیل مدت میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہوگئی۔ ان میں حضرت سالم رضی اللہ عنہ مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے، وہی ان حضرات کو تعلیم دیتے تھے اور امامت بھی کرواتے تھے۔یہ تعلیمی سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری تک جاری تھا۔عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن غنم کا بیان ہے: حدثنی عشرة من أصحاب رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم قالوا: کنا نتدارس العلم في مسجد قبا إذ خرج علينا رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم ، فقال: تعلّموا ماشئتم إن تعلّموا فلن يأجرکم اللّٰه حتی تعملوا (۳۵) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم لوگ مسجد قبا میں علم دین پڑھتے پڑھاتے تھے۔اسی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمار ے پاس آئے اور فرمایا: تم لوگ جو چاہو پڑھو،جب تک عمل نہیں کرو گے، اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو اجروثواب نہیں دے گا۔‘‘ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قبا کے مہاجرین میں متعدد حضرات قرآن کے عالم ومعلم تھے۔ان میں حضرت سالم رضی اللہ عنہ مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اور وہی امامت کے ساتھ تدریسی خدمت میں بھی نمایا ں تھے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کابیان ہے: لما قدم المهاجرون الأولون العصبة (موضع بقباء) قبل مقدم رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم کان سالم رضی اللہ عنہ مولٰی أبی حذيفه رضی اللہ عنہ يؤم المهاجرين الأولين فی مسجد قباء وکان أکثرهم قرآنا(۳۶) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے مہاجرین اوّلین کی جماعت جب عصبہ آئی،جو قبا کی ایک جگہ ہے، تومسجد ِ قبا میں ان لوگوں کی امامت سالم رضی اللہ عنہ مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ کرتے تھے،وہ ان میں قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے۔‘‘ حضرت سالم رضی اللہ عنہ جنگ ِ یمامہ میں مہاجرین کے علمبردار تھے،بعض لوگوں کو ان کی قیادت میں کلام ہوا تو انہوں نے کہا : بئس حامل القرآن أنا (یعنی إن فررت)