کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 36
علاقے میں تھی۔ ان تین مستقل تعلیمی مراکز کے علاوہ انصار کے مختلف قبائل اور آبادیوں میں قرآن اور دینی احکام کی تعلیم جاری تھی۔اور ان کے معلم ومنتظم انصار کے رؤسا اور بااثر حضرات تھے ۔مکہ مکرمہ میں ضعفاء ومساکین نے سب سے پہلے دعوتِ اسلام پر لبیک کہا اور سردارانِ قریش کے مظالم اور جبروتشدد کانشانہ بنے جبکہ مدینہ منورہ کے مسلمانوں کامعاملہ اس کے برعکس تھا۔ یہاں سب سے پہلے سردارانِ قبائل نے برضا ورغبت اسلام قبول کیا اور دعوتی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا۔بالخصوص قرآنِ مجید کی اشاعت اور تعلیم کامعقول انتظام کیا۔ قبل از ہجرت مدینہ میں جو درسگاہیں تعلیم قرآن کا مرکز تھیں ، ان کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے: 1 درسگاہِ مسجد بن زریق مدینہ منورہ میں تعلیم قرآن کا اوّلین مرکز اور درسگاہ مسجد ِبنی زریق تھی۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : فأول مسجد قریٔ فيه القرآن بالمدينة مسجد بنی زريق(۳۳) ’’مدینہ میں سب سے پہلے جس مسجدمیں قرآن پڑھا گیا،وہ مسجد ِبنی زریق ہے۔‘‘ اس درسگاہ کے معلم حضرت را فع رضی اللہ عنہ بن مالک زرقی قبیلہ خزرج کی شاخ بنی زریق سے تھے۔ بیعت عقبہ اولیٰ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور دس سال کی مدت میں جس قدر قرآن نازل ہوا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عنایت فرمایاجس میں سورۂ یوسف بھی تھی۔ وہ اپنے قبیلے کے نقیب اور رئیس تھے۔ انہوں نے مدینہ واپس آنے کے بعد ہی اپنے قبیلے کے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم پر آمادہ کیااور آبادی میں ایک بلند جگہ (چبوترے)پر تعلیم دینا شروع کی۔ مدینہ میں سب سے پہلے سورۂ یوسف کی تعلیم حضرت رافع رضی اللہ عنہ ہی نے دی تھی۔جب مکہ میں سورۃ طہٰ نازل ہوئی تو انہوں نے اسے لکھا اور مدینہ لے آئے اور بنی زریق کو اس کی تعلیم دی اور یہاں کے پہلے معلم ومقری یہی تھے۔ بعد میں اسی چبوترہ پر مسجد ِبنی زریق کی تعمیر ہوئی جو قلب ِشہر میں مصلّٰی (مسجد ِغمامہ) کے قریب جنوب میں واقع تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لانے کے بعد حضرت رافع رضی اللہ عنہ کی تعلیمی ودینی خدمات اور ان کی سلامتی طبع کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔(۳۴) اس درسگاہ کے استاد اور اکثر شاگرد قبیلہ خزرج کی شاخ بنی زریق کے مسلمان تھے۔