کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 35
موجودگی کا بھی واضح طور پر اشارہ ملتا ہے۔محصوری کے اس دور میں جس قدر وحی نازل ہوئی، یقینا شعب ِ ابی طالب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کی تعلیم دی ہوگی اور یہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی دینی اُمور پر تبادلہ خیال کرتے ہوں گے۔ اس لحاظ سے شعب ِ ابی طالب کو بھی مکی عہد ِنبوت کا ایک دعوتی مرکز قرار دیا جاسکتا ہے۔جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عرصہ تین سال تک تعلیم وتعلّم اور دعوت وتبلیغ میں مشغول رہے۔
ہجرت سے قبل مدینہ کے اہم دعوتی وتبلیغی مراکز
بیعت ِ عقبہ اولیٰ کے بعد مدینہ منورہ میں اسلام انتہائی سرعت کے ساتھ پھیلا۔ بالخصوص حضرت مصعب رضی اللہ عنہ بن عمیرکے خوبصورت اور دلکش اسلوبِ دعوت کی بدولت انصار کے دونوں قبائل اوس وخزرج کے عوام اور اَعیان واَشراف جوق درجوق اسلام میں داخل ہونے لگے۔اور ہجرتِ عامہ سے دوسال قبل ہی وہاں مساجد کی تعمیر اور قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہوچکا تھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کابیان ہے :
لقد لبثنا بالمدينة قبل أن يقدم علينا رسول اللّٰه صلی اللہ علیہ وسلم سنتين، نعمر المساجد ونقيم الصلوٰۃ (۳۲)
’’ہمارے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے دوسال پہلے ہی ہم لو گ مدینہ میں مساجد کی تعمیر اور نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے۔‘‘
اس دوسالہ درمیانی مدت میں تعمیر شدہ مساجد میں نماز کی امامت کروانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی معلم کی خدمات بھی انجام دیتے تھے۔اسی دوران مدینہ منورہ میں تین مستقل درسگاہیں بھی قائم ہوچکی تھیں اور ان میں باقاعدہ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری تھا۔چونکہ اس وقت تک صرف نماز ہی فرض ہوئی تھی، اس لئے قرآنِ مجید کے ساتھ عموماً نماز کے احکام ومسائل اور مکارمِ اخلاق کی تعلیم دی جاتی تھی۔یہ تینوں درس گاہیں اس طرح اہل مدینہ کی دینی ضروریات کو اس انداز میں پورا کررہیں تھیں کہ شہر مدینہ اور اس کے انتہائی کناروں اور آس پاس کے مسلمان آسانی سے وہاں تعلیم حاصل کرسکتے تھے۔
پہلی درسگاہ قلب ِ شہر میں مسجد ِ بنی زُریق تھی۔دوسری درسگاہ مدینہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پر قبا میں تھی اور تیسری درسگاہ مدینہ کے شمال میں کچھ فاصلے پر نقیع الخضمات نامی