کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 3
مزید برآں یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ متحدہ مجلس کی حکومت کو پہلے سے موجود سرکاری مشینری پر انحصار کرنا پڑے گا۔ وہ اپنی طرف سے مختلف افسران اور اہل کاروں کا تبادلہ تو کرسکتی ہے مگر وسیع پیمانے پر نئی مشینری تعینات نہیں کرسکتی۔ عدلیہ کے بارے میں تو اسے تبادلے کے اختیارات بھی حاصل نہیں ہیں ، کیونکہ ماتحت عدالتوں کے ججوں کو ہائی کورٹ کا چیف جسٹس ٹرانسفر کرتا ہے۔ مزید برآں صوبہ میں وفاقی حکومت کے مقرر کردہ گورنر کی موجودگی بھی ایک اعتبار سے صوبائی حکومت پر ’چیک‘(Check) ہے۔ صوبائی گورنر اپنے اختیارات کی بنا پر پالیسی سازی پر اثرانداز ہوسکتے ہیں ۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت کو بعض معاملات میں دیگر صوبائی حکومتوں پر برتری بھی حاصل ہے۔ نفاذِ اسلام کے سلسلے میں ان میں سے اہم ترین مثبت نکتہ یہ ہے کہ سرحد کے مخصوص ثقافتی پس منظر اور اسلام سے جذباتی وابستگی کی بنا پر وہاں کے عوام میں اسلامی نظام کے نفاذ کے سلسلہ میں نسبتاً زیادہ جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ وہاں کے لوگوں کا سادہ رہن سہن اور سماجی مساوات بھی ایک ایسی فضا پیدا کرتے ہیں جو نفاذِ اسلام کی راہ میں مزاحم ہونے کی بجائے اسے مزید آسان بناتی ہے۔ صوبہ سرحد میں پنجاب اور سندھ جیسا جاگیردارانہ نظام ہے، نہ ہی بلوچستان جیسا سرداری اور قبائلی نظام، جو ہمیشہ اسلامی انقلاب کی راہ میں روڑے اٹکاتا رہتا ہے۔ صوبہ سرحد واحد صوبہ ہے جس کے بعض علاقوں مثلاً مالا کنڈ، سوات، دیر وغیرہ میں گذشتہ کئی برسوں سے نفاذِ شریعت کی تحریک چل رہی ہے۔ سوات میں مولوی صوفی محمد کی تحریک نفاذِ شریعت اور وہاں کی حکومت کے درمیان پہلے ہی نفاذِ اسلام کے ضمن میں ایک معاہدہ یا ٹائم فریم پر اتفاقِ رائے ہوگیا ہے۔ اس طرح کی تحریکیں متحدہ مجلس عمل کی فطری معاون و مؤید ہوں گی۔ صوبہ سرحد کے ایک وسیع علاقہ ہزارہ ڈویژن، مردان اور پشاور پر سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہم اللہ کی تحریک ِمجاہدین کے اب تک گہرے اثرات ہیں ۔ مزید برآں صوبہ سرحد میں دینی مدارس کا جس قدر طاقتور نیٹ ورک موجود ہے، پاکستان کے کسی دوسرے صوبہ میں موجود نہیں ہے۔ ان کی وجہ سے وہاں دینی علوم کی اشاعت اور نفاذِ اسلام کے لئے سازگار فضا پہلے سے موجود ہے۔ افغان مہاجرین اور جہادِ افغانستان میں عملی طور پر شریک ہزاروں مجاہدین کا تعلق بھی صوبہ سرحد سے ہے۔ صوبہ سرحد کے عوام کی تہذیبی قدامت پسندی اور وہاں کا مستحکم خاندانی نظام بھی متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے لئے ایک مثبت عنصر کا حامل ہے۔ دینی مدارس اور