کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 28
حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادے سے (معاذ اللہ)روانہ ہوئے،راستہ میں اپنی بہن فاطمہ بنت ِ خطاب رضی اللہ عنہا کے گھر سورہ طہٰ کی تلاوت سنی تو کایا ہی پلٹ گئی۔ ان کو مائل بہ اسلام دیکھ کر حضرت خباب رضی اللہ عنہ بن ارت نے انہیں خوشخبری کے انداز میں بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دارِ ارقم میں یہ دعا کرتے سناہے اللّٰهم أيد الاسلام بأبي الحکم بن هشام أو بعمر بن الخطاب(۱۵) ’’اے اللہ!ابوالحکم بن ہشام یا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اسلام کی تائید فرما…‘‘ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہاں سے سیدھے دارِ ارقم پہنچے اور اسلام قبول کرلیا۔ ٭ دارِ ارقم’دارالاسلام‘ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے لئے’دارالشوریٰ‘بھی تھا۔پہلی اور دوسری ہجرت حبشہ جیسے اہم معاملات بھی اسی جگہ باہمی مشاورت ہی سے انجام پائے۔ابن ہشام کے الفاظ اس مجلس مشاورت کی صاف غمازی کررہے ہیں : قال لهم: لو خرجتم إلی أرض الحبشة فإن بها ملکا لايظلم عنده أحد، وهی أرض صدق،حتی يجعل اللّٰه لکم فرجا مما أنتم فيه (۱۶) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا: اگر تم سرزمین حبشہ کی طرف نکل جاؤ تو وہاں ایک بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ وہ سچائی کی سرزمین ہے، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اس مشکل سے نجات دلادے جس میں تم گرفتار ہو…‘‘ ان الفاظ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ خطاب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کسی اجتماع سے ہی ہو گا جو دارِ ارقم میں انعقاد پذیر ہوگا۔اسی طرح ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم جمع ہوئے اور باہمی مشاورت سے طے کیا کہ قریش نے قرآن کو اپنے سامنے بلند آواز سے پڑھتے ہوئے کبھی نہیں سنا، لہٰذا کوئی ایسا شخص ہو جو یہ فریضہ انجام دے۔چنانچہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن مسعودنے یہ ذمہ داری قبول کی اور قریش کو ان کی مجلس میں جاکر قرآن کی طرف دعوت دی۔(۱۷) اگرچہ یہ تفصیل معلوم نہیں ہوسکی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ مجلس مشاورت کہاں پر منعقد ہوئی تاہم گمان یہی ہے کہ یہ مجلس مشاورت دارِ ارقم ہی میں قائم ہوئی ہوگی، کیونکہ اس کے علاوہ صحابہ کا اجتماع کسی اور جگہ پر مشکل تھا۔ ابتدائی دور کے تذکرہ نگار اور مؤرخین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دارِ ارقم میں فروکش ہونے کو اتنا اہم اور انقلابی واقعہ تصور کرتے ہیں کہ واقعاتِ سیرت وتذکرۂ صحابہ میں وہ یہ کہتے ہوئے سنائی