کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 26
مشرکین مکہ جب اسلام کے پھیلاؤ کو کسی طرح بھی نہ روک سکے تو انہوں نے کمزور ضعفاء اسلام پر عرصۂ حیات تنگ کردیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو بیت اللہ میں آزادانہ نماز ادا کرنے سے روکتے، ذکر الٰہی اور تلاوتِ قرآن میں خلل انداز ہوتے،دست درازی کرتے اور اکثر ان کارویہ انتہائی گستاخانہ ہوتا تھا۔حالات اس قدر نازک ہوچکے تھے کہ مسلمانوں کے لئے گوشوں اور گھاٹیوں تک میں محفوظ اور آزادانہ طور پر عبادت اور نماز کا ادا کرنا ممکن نہ تھا۔ ابن اسحق کا بیان ہے :
’’ایک دفعہ مسلمان مکہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے ایک گروہ نے انہیں دیکھ لیا اوران کو سخت سست کہنا شروع کیا۔بات بڑھتے بڑھتے لڑائی تک پہنچ گئی اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اونٹ کی ہڈی کھینچ ماری، جس سے اس کا سر پھٹ گیا۔ یہ پہلا خون تھا جو اسلام کے لئے بہایا گیا۔(۱۰)
یہ وہ سنگین حالات تھے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر دارِارقم میں پناہ گزین ہوگئے تاکہ مسلمان پورے انہماک سے اپنے ربّ کے حضور اپنی جبین نیاز کو جھکاسکیں ،چنانچہ جلد ہی دارِارقم اسلا م اور دعوتی سرگرمیوں کامرکز بن گیا، جہاں پر نہ صرف لوگوں کودائرۂ اسلام میں داخل کیا جاتا تھا بلکہ ان کی مناسب تعلیم وتربیت اور تزکیۂ نفس بھی کیاجاتا تھا، ابن ِسعد کی روایت ہے:
کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم يسکن فيها فی أول الاسلام وفيها يدعو الناس إلی الاسلام فأسلم فيها قوم کثير(۱۱)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتداے اسلام میں ہی اس مکان (دارِ ارقم )میں رہتے تھے، لوگوں کواسلام کی دعوت دیتے تھے اور بہت سے لوگوں نے یہاں اسلام قبول کیا۔‘‘
ابن جریر طبری بھی مکی عہد ِنبوت میں ’دارِ ارقم‘ کو دعوتی سرگرمیوں کا مرکز قرار دیتے ہیں جہاں پر کثیر لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ چنانچہ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وکان داره علی الصفا، وهی الدار التی کان النبي صلی اللہ علیہ وسلم يکون فيها في أول الاسلام وفيها دعا الناس إلی الاسلام فأسلم فيها قوم کثير(۱۲)
’’حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا گھر کوہِ صفا پرواقع تھا اور یہی وہ گھر ہے جہاں آغازِ اسلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رہاکرتے تھے۔یہیں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو دعوتِ اسلام دیا کرتے تھے اور یہاں پر بہت سے لوگ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔‘‘