کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 25
مطابق حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کاقبولِ اسلام میں دسواں یابارہواں نمبر ہے۔(۹) البتہ اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ ٭ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ابتدائی دور میں ہی اسلام قبول کرلیاتھا۔ ٭ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا تعلق قبیلہ بنو مخزوم سے تھا۔ کنیت ابوعبداللہ رضی اللہ عنہ اور سلسلۂ نسب اس طرح ہے:ارقم رضی اللہ عنہ بن (ابی الارقم) عبد مناف بن (ابی جندب) اسد بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم (i) حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام تماضر بنت خدیم تھا جو قبیلہ بنو سہم بن عمرو بن ہصیص سے تعلق رکھتی تھیں ۔ (ii) حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بنو مخزوم قریش مکہ کے سرکردہ اور بااثر قبائل میں سرفہرست تھا۔ اس قبیلے کے جدامجد مخزوم بن یقظہ کا سلسلہ نسب تیسری پشت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ نسب سے جاملتا ہے۔ یقظہ، مرہ بن کعب کابیٹا تھا اور سرتاجِ قریش قصی (جو ہاشم بن عبدمناف کا باپ تھا) کا باپ کلاب بن مرہ بن کعب کا ہی بیٹا تھا۔ (iii) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد ِگرامی عبداللہ بن عبدالمطلب کی والدہ ماجدہ فاطمہ (بنت عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ) کا تعلق بھی بنو مخزوم ہی سے تھا ۔ (iv) حضرت ارقم رضی اللہ عنہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد ِحکومت میں ۵۵ھ اور ایک روایت کے مطابق ۵۳ ھ میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے، اس وقت ان کی عمر تراسی یا پچاسی برس تھی۔ آپ کی وصیت کے مطابق سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (v) امام ابوعبداللہ حاکم نیشاپوری کا قول ہے: ’’وکان الأرقم من آخر أھل بدر وفاۃ‘‘ (vi) ’’حضرت ارقم رضی اللہ عنہ بدری صحابہ میں سے سب سے آخر میں فوت ہوئے۔‘‘ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ نے وقف علیٰ الاولاد کے طور پر اپنے گھر کو فی سبیل اللہ وقف کردیا تھا۔ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کو وقف فی سبیل قرار دینے سے متعلق جو نوشتہ تحریر کیا تھا، امام حاکم نے وہ عبارت نقل کی ہے، وہ عبارت یہ تھی: بسم اللہ الرحمن الرحیم: ھذا ما قضیٰ الأرقم رضی اللہ عنہ فی ربعۃ ما حاز الصفا إنھا صدقۃ بمکانھا من الحرم، لا تُباع، ولا تورث شھد ہشام بن العاص ومولیٰ ہشام بن العاص (vii) ’’یہ وہ فیصلہ ہے جو ارقم رضی اللہ عنہ نے اپنی حویلی کے متعلق دیا جو کہ کوہِ صفا کے ساتھ واقع ہے۔حرم کے قریب ہونے کے باعث یہ حویلی مثل حرم محترم قرار دی جاتی ہے۔ نہ یہ فروخت ہوگی، نہ وراثت میں دی جائے گی۔ اس پر ہشام بن عاص او رمولیٰ ہشام بن عاص گواہ ہیں ۔‘‘ (i) الاستیعاب، تذکرہ ارقم رضی اللہ عنہ بن ابی الارقم، ۱/۱۳۱ (ii) ایضاً، اسدالغابہ، تذکرہ ارقم رضی اللہ عنہ بن ابی الارقم، ۱/۶۰، المستدرک، تذکرۃ ارقم رضی اللہ عنہ بن ابی الارقم، ۳/۵۰۲ (iii) ابن حزم ، ابومحمدعلی احمد بن سعید، ’’جمہرۃ اَنساب العرب‘‘، ص:۱۴۱، دارالمعارف، قاہرہ (iv) جمہرۃ الانساب، ص:۱۴۱،۱۵ (v) اسد ا لغابہ، تذکرہ ارقم رضی اللہ عنہ بن ابی الارقم، ۱/۶۰ (vi) المستدرک، تذکرہ ارقم رضی اللہ عنہ بن ابی الارقم، ۳/۵۰۲ (vii) المستدرک، تذکرہ ارقم رضی اللہ عنہ بن ابی الارقم، ۳/۵۰۳