کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 24
نہیں ،خباب بن الارت رضی اللہ عنہ میری بہن اور بہنوئی کے پاس آتے جاتے تھے اور ان کو قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔(۴) اس سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کایہ بیان ہے : وکان القوم جلوسا يقرء ون صحيفة معهم (۵) ’’اور ایک جماعت بیٹھ کر صحیفہ پڑھ رہی تھی جوان کے پاس موجود تھا۔‘‘ بیت ِ فاطمہ بنت ِ خطاب رضی اللہ عنہا کو مکی دور میں قرآنِ مجید کی تعلیم اور اشاعت کا مرکز کہاجاسکتا ہے جہاں کم ازکم دو طالب علم اور ایک معلم تھا۔اور اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بیان میں لفظ’قوم‘کا اعتبار کیا جائے تو یقینی طور پریہاں قرآن پڑھنے والی ایک پوری جماعت کا پتہ چلتاہے۔ 3 دارِ ارقم حضرت ارقم بن ابی الارقم رضی اللہ عنہ سابقون اوّلون اسلام لانے والوں میں سے ہیں ۔ وکانت دارہ علی الصفا(۶)’’مکہ میں ان کا مکان کو ہِ صفا کے اوپر تھا۔‘‘ دارِ ارقم٭ کے نام سے شہرت حاصل کرنے والے اس مکان کو اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ یہ مکان ’دارالاسلام‘کے متبرک لقب سے بھی یادکیا جاتا ہے۔(۷) آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے عثمان بن ارقم،جو ثقہ محدث ہیں ،کہاکرتے تھے: أنا ابن سبع الاسلام،أسلم أبی سابع سبعة (۸) ’’میں (عثمان) ایک ایسی ہستی کافرزند ہوں جنہیں اسلام میں ساتواں درجہ حاصل ہے، میرے والد اسلام قبول کرنے والے ساتویں آدمی ہیں ۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ’الاصابہ‘ میں ابن سعد کے قول کوہی اختیار کیا ہے تاہم ابن الاثیر کے ٭ لفظ ’دار‘ عموماً بڑے گھروں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ ’بیت‘ یا ’منزل‘ بھی اگرچہ عربی الفاظ ہیں مگر ان کی حیثیت ’دار‘ سے کم تر ہے۔ دار سے مراد ایسا مکان یا رہائش گاہ ہے جس کی چاردیواری بالکل محفوظ ہو۔ جس میں خواب گاہیں ، صحن اور کمرے ہوں ۔(i) ابن منظور نے ’لسان العرب‘ میں ابن جنی کا قول نقل کیا ہے کہ جہاں لوگ محفوظ اور آزادانہ گزر بسر کرسکتے ہوں ، اسے ’دار‘ کہتے ہیں ۔(ii) (i) تاج العروس، فصل الباء من باب التاء، ۱/۵۲۹ (ii) ابن منظور، جمال الدین محمد بن مکرم، ’لسان العرب‘، دار ،۴/۲۹۸، نشر ادب الحوزہ، قم، ایران، ۱۴۰۵ھ