کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 22
1 مسجد ابی بکر رضی اللہ عنہ مکی دور میں دعوت وتبلیغ کا اوّلین مرکز حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وہ مسجد تھی جو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کے صحن میں بنا رکھی تھی۔ابتدا میں یہ ایک کھلی جگہ تھی جس میں آپ رضی اللہ عنہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور نماز پڑھا کرتے تھے۔عام طور پرآپ رضی اللہ عنہ بلند آواز سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے تو کفار ومشرکین مکہ کے بچے اور عورتیں ان کے گر دجمع ہوکر قرآن سنتے، جس سے ان کا دل خود بخود اسلام کی طرف مائل ہوتا۔ یہ صورتِ حال مشرکین ِمکہ کو بھلا کب گوارا تھی،چنانچہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سخت اذیت میں مبتلا کیا جس کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ نے مکہ سے ہجرت کاارادہ کرلیا۔مگر راستے میں قبیلہ قارہ کے رئیس ابن الدغنہ سے ملاقات ہوئی۔اس نے پوچھا: اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! کدھر کا ارادہ ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ میری قوم نے مجھے ہجرت پر مجبور کردیا ہے، اب دنیا کی سیر کروں گااور کسی گوشہ میں اطمینان سے اپنے ربّ کی عبادت کروں گا،مگر ابن الدغنہ یہ کہہ کرآپ کو واپس لے آیاکہ آپ رضی اللہ عنہ جیسے باکردار شخص کو ہجرت پر مجبور نہیں کیاجاسکتا اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کیلئے اپنی پناہ کا اعلان کیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ واپس تشریف لے آئے اور گھر کے صحن میں باقاعدہ مسجد بنالی، صحیح بخاری میں ہے: ثم بدأ لأبی بکر رضی اللہ عنہ فابتنٰی مسجدا بفناء داره وبرز فکان يصلی فيه ويقرأ القرآن(۱) ’’پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مکان کے باہر صحن میں ایک مسجد بنائی،اور اس میں نماز اور قرآن پڑھتے تھے۔‘‘ مسجد ِابی بکر رضی اللہ عنہ میں نہ کوئی مستقل معلم مقرر تھا اور نہ کوئی باقاعدہ طالب علم تھا۔البتہ یہ مسجد تلاوتِ قرآن اور اشاعت ِ قرآن کیلئے مکی دور کی اوّلین درس گاہ اور تبلیغی مرکز قراردی جاسکتی ہے جہاں پر کفارِ مکہ کے بچے بچیاں اور عورتیں قرآن کے آفاقی پیغام کو لحن صدیقی رضی اللہ عنہ میں سنتے تھے اور مائل بہ اسلام ہوتے تھے۔چنانچہ ابن اسحق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سند سے روایت کرتے ہیں : وکان رجلا رقيقا، إذا قرأ القرآن استبکی، فيقف عليه الصبيان والعبيد والنساء، يعجبون لما يرون من هيئته، فمشی رجال من قريش إلی ابن الدغنة، فقالوا: يا ابن الدغنة ، إنک لم تجر هذا الرجل ليؤذينا ! إنه رجل إذا صلی وقرأ ماجاء به محمد صلی اللہ علیہ وسلم يرق ويبکی، وکانت له هيئته