کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 267 مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور ترجمہ: بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ فکر ونظر صوبہ سرحد میں ’متحدہ مجلس عمل‘ کی ترجیحات گذشتہ شمارے میں پاکستان میں نفاذِ اسلام کے متعلق عام مسلمان جو توقعات وابستہ کرتے ہیں ، ان کا مختصر طور پراحساس دلایا گیا تھا۔ ذیلی سطور میں جو کچھ پیش کیا جائے گا، وہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مفصل خاکہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس میں بیان کیا جائے گا کہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کس طرح اپنی ترجیحات کا تعین کرنے کے بعد تدریجی انداز میں نفاذِ اسلام کے کٹھن نصب العین پر عمل درآمد کا آغاز کرے۔ 1. تحدیدات کا اِدراک سب سے پہلی بات جو مجلس عمل کی قیادت کے لئے گہرے غوروفکر کی متقاضی ہے، وہ یہ ہے کہ سرحد کی حکومت اپنی کمزوریوں (Weaknesses)، تحدیدات (limitations) اور مضبوطیوں (Strengths)کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے اور ان کا معروضی تجزیہ کرے۔ ہمارے خیال میں صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت کو درپیش اہم ترین مسئلہ اس کا محدود دائرۂ کار ہے۔ آئین کے مطابق صوبائی خود مختاری کی حدود متعین ہیں ، اس سے ایک صوبائی حکومت تجاوز نہیں کرسکتی۔ پاکستان کے آئین کے مطابق صوبائی حکومت اپنے انتظامی اور ترقیاتی اخراجات کے لئے وفاقی حکومت کی گرانٹ پر انحصار کرتی ہے، اس کے اپنے وسائل بہت محدود ہیں ۔ متحدہ مجلس عمل امریکہ کے خلاف مخالفانہ جذبات کو کیش کرکے اقتدار میں آئی ہے، مگر خارجہ پالیسی کے اُمور صوبائی دائرۂ کار میں نہیں آتے، اس بات کا ٹھنڈے دل سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس معاملے میں صوبائی حکومت کی طرف سے غیر ضروری اصرار وفاقی حکومت کے ساتھ اس کے تصادم کے امکانات کو بڑھا سکتا ہے۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت قانون سازی میں بھی وسیع اختیارات نہیں رکھتی کیونکہ ہمارے ملک میں نظم و نسق اور دیگر معاملات کے متعلق اہم قوانین ہمیشہ وفاقی حکومت بناتی ہے۔ صوبائی مجالس ِقانون ساز ایسے اُمور پر قانون سازی نہیں کرسکتیں اور نہ ہی پہلے سے موجود وفاقی قوانین میں کوئی ردّوبدل کرنے کی مجاز ہوتی ہیں ۔