کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 17
علاقہ جات کو کنٹرول کرتے ہیں ۔
3. ضلعی حکومتیں : حال ہی میں ضلعی حکومتوں کے ڈھانچہ میں انقلابی اصلاحات کی گئی ہیں ۔ ڈویژنل کمشنرز کے عہدے یکسر ختم کردیئے گئے اور ڈپٹی کمشنروں کی جگہ پر ڈسٹرکٹ کوآرڈی نیشن آفیسرز (DCOs) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ہر ضلع میں DOs,EDOs اور DDOs تعینات کئے گئے ہیں ۔ ضلع کا کنٹرول ضلعی ناظم کو دیا گیا ہے جو کہ عوام سے منتخب شدہ ہوتا ہے۔
4. پولیٹیکل ایجنسی : صوبہ سرحد میں ضلعی حکومتوں کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں میں مختلف ایجنسیوں کاانتظامی ڈھانچہ بھی موجود ہے۔ کل سات ایجنسیاں ہیں ، مثلاً خیبرایجنسی، مہمند ایجنسی، مالا کنڈ ایجنسی، وزیرستان ایجنسی، باجوڑ ایجنسی وغیرہ۔ ان کا انتظامی کنٹرول پولیٹیکل ایجنٹ سنبھالتے ہیں جو براہِ راست گورنر کو جواب دہ ہوتے ہیں ۔ پی اے کا عہدہ بہت بااختیار ہوتا ہے، اس کے پاس بیک وقت ڈپٹی کمشنر اور ایس پی کے اختیارات ہوتے ہیں ۔
صوبہ سرحد کی صوبائی حکومت کے انتظامی ڈھانچہ کا مختصر خاکہ پیش کرنے کے بعد درج ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں کہ حکومتی مشینری کو نفاذِ اسلام کے اہم مشن میں کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے :
1. رجحان سازی(Re-orientation): یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پاکستان میں بیوروکریسی کا عمومی مزاج آج بھی وہی ہے، جس کی تشکیل نو آبادیاتی دورکے تقاضوں کے پیش نظر کی گئی تھی۔ اس کی تربیت انہی خطوط پر کی جاتی ہے اور اس کے کام کرنے کا سٹائل بھی بہت کم بدلا ہے۔ قواعد و ضوابط کے سینکڑوں مجموعہ جات من و عن نافذ العمل ہیں ، کہیں کہیں معمولی سی ترامیم کی گئی ہیں ۔ یہ بیوروکریسی انگریز دورمیں بہت بااختیار تھی اور سیاستدانوں یا عوام کی مداخلت کے بغیر کام کرنے کی عادی رہی ہے۔ ان اختیارات کے ساتھ ایک عام افسر اپنے آپ کو وقت کا حاکم سمجھتا تھا۔ انگریز بھی یہی چاہتے تھے کہ وہ بارعب حاکم بن کر نظام چلائیں ، عوام کے خادم کے طور پرنہیں ۔ گذشتہ اَدوار میں انہیں ’عوام کے خادم‘ بنانے کی نیم دلانہ کوششیں کی گئیں مگر وہ بہت نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں ۔
’متحدہ مجلس عمل‘ کے لئے سب سے اہم چیلنج یہ ہے کہ وہ حکومتی مشینری میں ’عوامی خادم‘ ہونے کے احساسات کو کیسے اجاگر کرے۔ ہمارے خیال میں اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ صوبائی وزرا سب سے پہلے عملی طور پر اپنے آپ کو عوامی خادم بنا کر پیش کریں ، پروٹوکول کلچر اور