کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 16
ہے۔ جدید پبلک ایڈ منسٹریشن قوتِ نافذہ کو دو درجات میں تقسیم کرتی ہے۔ پہلی سطح پر سیاسی اشرافیہ (Political Elites) ہے، ان کا بنیادی منصب نظام کے بنیادی خدوخال اور مختلف شعبہ جات میں ترجیحات کے تعین کے بعد پالیسی سازی (Policy Formulation) کا اہم فریضہ سرانجام دینا ہے۔ موجودہ حکومتی ڈھانچے میں وزیراعلیٰ، کابینہ کے ارکان،مشیران اور گورنر سیاسی اشرافیہ میں شامل ہیں ۔ دوسری سطح پر حکومتی مشینری یابیوروکریسی آتی ہے۔ ان کا بنیادی فریضہ آئین، قواعد و ضوابط اور حکومتی پالیسی پر عملدرآمد (Policy Implementation) ہوتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں کیونکہ سیاسی اشرافیہ پالیسی سازی جیسے اہم کام کو خود نہیں کرسکتی، اسی لئے پالیسی بنانے اور اس پر عمل درآمد کے دونوں کام بالفعل بیوروکریسی ہی انجام دیتی ہے۔ صوبائی سطح سے لے کر تحصیل کی سطح پر حکومتی مشینری ایک انتظامی زنجیر میں منسلک رہتے ہوئے اپنے فرائض نبھاتی ہے۔ اس کے اہم ترین ارکان میں چیف سیکرٹری اور تمام شعبہ جات کے سیکرٹری صاحبان ہوتے ہیں ۔ عام طور پر بیوروکریسی کی ترکیب انہی اہم افسران کے لئے ہی استعمال کی جاتی ہے۔ حکومتی مشینری چونکہ مستقل بنیادوں پر قائم رہتی ہے، اسی لئے سیاسی اشرافیہ عام طور پر اس کے مقابلے میں کمزور رہتی ہے۔ ہمارے ہاں فوجی اور سول بیوروکریسی کی وفاقی سطح پر اقتدار میں طویل شرکت نے بھی حکومتی افسران کے مزاج کو متاثرکیا ہے۔ صوبائی مشینری کو تین سطحوں Tiers میں تقسیم کیا جاسکتا ہے : 1. صوبائی سیکرٹریٹ: یہ درحقیقت صوبائی حکومت کے ہیڈکوارٹر کا کام کرتا ہے۔ اس کا سربراہ صوبہ کا سب سے بڑا افسر یعنی چیف سیکرٹری ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام شعبہ جات کے سربراہان جو سیکرٹری کہلاتے ہیں ، ان کے دفاتر بھی یہاں پر ہوتے ہیں ۔ ہر شعبہ میں ایڈیشنل سیکرٹری، ڈپٹی سیکرٹری اور سیکشن آفیسرز تعینات ہوتے ہیں ۔ سیکرٹریٹ ایک پالیسی ساز ادارہ ہے جو پورے صوبے کی مشینری کو کنٹرول کرتا ہے اور حکومتی پالیسی کے نفاذ کو یقینی بناتا ہے۔ وزیراعلیٰ اور کابینہ کے ارکان سیکرٹریٹ کے ذریعے صوبائی معاملات کی نگرانی کرتے ہیں ۔ 2. ملحقہ شعبہ جات یا ڈائریکٹوریٹ: ملحقہ شعبہ جات کے سربراہان، انتظامی سیکرٹری کو جواب دہ ہوتے ہیں ۔ وہ حکومتی احکامات موصول کرکے فیلڈ کے افسران کے ذریعے اس پر عمل درآمد کراتے ہیں اور اس کی رپورٹ صوبائی سیکرٹری کو ارسال کرتے ہیں ۔ ریجنل ڈائریکٹر بھی مختلف