کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 15
بنیادوں پر ترقیاتی منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچائے جائیں ۔
4. پینے کا پانی:پینے کے صاف پانی کی فراہمی یوں تو ایک قومی مسئلہ ہے، مگر یہ پہاڑی علاقوں میں بے حد سنگین ہے۔ وہاں کافی فاصلہ طے کرکے چشموں یا ندی نالوں سے پانی لایا جاتا ہے جو کہ بے حد دشوار گزار ہے۔ اکثر چشمے بااثر افراد کے قبضہ میں ہوتے ہیں جہاں سے غریب آدمی کو پانی حاصل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایسے ترقیاتی منصوبہ جات بنائے جائیں جس سے اس مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکے۔
5. ماڈل ویلیج کا قیام:جن لوگوں کو صوبہ سرحد کے پہاڑی علاقوں میں سفر کرنے کا موقع ملا ہے، انہیں بعض اوقات یہ دیکھ کر بے حد تعجب ہوتا ہے کہ بلند و بالا پہاڑوں کی چوٹیوں پر بکھرے ہوئے دور دور تک چھوٹے چھوٹے گھر دکھائی دیتے ہیں ۔ ان کا اپنا کلچر ہے۔ بعض اسباب کی بنا پر یہ لوگ آج تک اس منتشر حالت میں رہے ہیں ۔ ایسے علاقوں کا سروے کرنے کے بعد ’ماڈل ولیج‘ قائم کئے جائیں جن میں دور دور بکھرے ہوئے پہاڑی خاندانوں کو ایک جگہ یکجا کیا جاسکے تاکہ وہاں زندگی کی سہولیات مثلاً تعلیم، صحت اور بجلی وغیرہ کی فراہمی کا کام آسان اور سستا ہو۔ ان لوگوں کو جدید تمدن کی سہولیات سے بہرہ مند ہونے کے لئے تیار کیا جائے۔
6. صنعتوں کا قیام:صوبہ سرحد صنعتی اعتبار سے بے حد پسماندہ ہے حالانکہ آگے بڑھنے کے امکانات وہاں کسی سے کم نہیں ۔ درّہ آدم خیل جیسے علاقوں میں کلاشنکوف تک تیار کی جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وہاں پرایسی صنعتیں قائم کی جائیں جن میں افرادی قوت کی کھپت زیادہ ہو تاکہ بے روزگاری کے خاتمہ میں مدد مل سکے۔ سنٹرل ایشیا سے قریب ہونے کی وجہ سے صوبہ سرحد میں صنعتی اشیا کی برآمد کے امکانات روشن ہیں ۔ صوبہ کے خام مال اور افرادی قوت کو سامنے رکھ کر ’کاٹیج انڈسٹری‘ کا جال پھیلایا جاسکتا ہے۔
7. پاور پراجیکٹ:صوبہ سرحد کی حکومت کا ’کالا باغ ڈیم‘ کی حمایت میں بیان خوش آئند ہے۔ اس صوبہ میں چھوٹے چھوٹے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام ہوسکتا ہے جسے صوبائی حکومت خود انجام دے سکتی ہے۔ ماہرین سے ایسے منصوبے ڈیزائن کرائے جائیں ۔
6. بیورو کریسی (قوتِ نافذہ)
قوتِ نافذہ کے بغیر کوئی بھی نظام نافذ نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ ناگزیر تو نہیں مگر ریاستی مشینری کی اس نظام سے نظریاتی وابستگی اس کے نفاذ کی کامیابی کے تناسب کو ضرور بڑھا دیتی