کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 14
کچھ ایسی اصلاحات کی جائیں کہ مخلوط تعلیم کے برے اثرات کم ہوجائیں ۔ مثلاً یونیورسٹی کی سطح پر اگر برقعہ نہیں تو بڑی چادر کو ضروری قرار دیا جائے اور کلاسوں میں اس طرح جداگانہ انتظام (Partition)کیا جائے کہ ایک کمرے میں ہونے کے باوجود طلبا اور طالبات کے درمیان پردہ حائل رہے۔
ثانیاً، ویمن کالجز میں ایم اے کی زیادہ سے زیادہ کلاسز کا اجرا کیا جائے تاکہ جو والدین اپنی بچیوں کو یونیورسٹی میں نہیں بھیجنا چاہتے، وہ وہاں تعلیم حاصل کرسکیں ۔
ثالثا ً،خواتین کے لئے ایک الگ یونیورسٹی قائم کی جائے۔
3. میٹرک تک کی تعلیم کو لازمی اور مفت قرار دیا جائے۔ دور دراز کے علاقوں میں تعلیمی مدارس کے قیام کو ترجیح دی جائے۔
4. سرکاری شعبہ میں ماڈل دینی مدارس قائم کئے جائیں ۔ جہاں قرآن و سنت کی تعلیم کسی خاص مسلک یا فقہی سکول کی بجائے مختلف مکاتیب کے امتزاج کو اس طرح پیش نظر رکھا جائے کہ قرآن و سنت کی حقیقی منشا مقصد ِتعلیم قرار پائے۔
5. دینی مدارس کی سرکاری سطح پر سرپرستی کی جائے مگر بے جا مداخلت سے گریز ضروری ہے۔
6. مسجد مکتب سکیم یعنی مساجد میں تعلیم کو قابل عمل اور متوازن صورت میں جاری کیا جائے۔
7. سائنسی تعلیم کے لئے مزید ادارے قائم کئے جائیں جو راسخ الاعتقاد مسلمان سائنسدانوں کی تربیت کا فریضہ انجام دیں ۔
2. صحت:صحت کے شعبہ پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بنیادی ہیلتھ مراکز کو دور دراز کے مقامات تک پھیلایا جائے۔ عوام الناس کو مفت اور سستے علاج کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ جعلی ادویات کے گھناؤنے کاروبار کا سختی سے قلع قمع کیا جائے۔ خواتین کے علاج کیلئے زیادہ سے زیادہ خواتین ڈاکٹرز تیار کی جائیں ۔ دور دراز پہاڑی علاقوں میں صحت کی سہولیات پہنچانے کے لئے گشتی میڈیکل ٹیمیں بنائی جائیں ۔ نرسنگ کے شعبہ میں مردوں کو بھی تربیت دی جائے۔ ڈاکٹرز میں انسانی خدمت کے جذبات کو اسلامی انداز میں پروان چڑھایا جائے ۔
3. ذرائع نقل وحمل:صوبہ سرحد کا وسیع علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے جہاں آمدورفت کے لئے ذرائع نقل و حمل محدود ہیں ۔ بہت سے علاقے پختہ سڑکوں سے محروم ہیں ۔ بعض علاقوں میں برف باری اور سلائیڈز کی وجہ سے شاہرات شدید متاثر رہتی ہیں ۔ ایسے علاقوں میں ترجیحی