کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 13
افرادی قوت سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کام نہیں کرسکتی اور اپنی صلاحیتوں کو آزمانے سے قاصر ہے۔ اسے قرضِ حسنہ دے کر اجتماعی ترقی میں ان کی شراکت کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ قرضِ حسنہ کی فراہمی کے لئے ضرورت مندوں کے تعین کا طریقہ کار اور اُصول ہمارے ہاں سے سودی بینکوں کے طریقہ کار سے یکسر مختلف ہونا چاہئے۔ قرضِ حسنہ محدود پیمانوں پر قابل اعتماد افراد کو ذمہ دار اور نیک افراد کی شخصی ضمانتوں کی بنیاد پر فراہم کیا جائے اور بغیر کسی معقول وجہ کے اس کی بروقت عدمِ ادائیگی کو قابل تعزیر بنایا جائے۔ تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کے لئے الگ الگ معیار مقرر کیا جائے۔
قرضِ حسنہ میں چھوٹے چھوٹے قرضوں (مائیکرو کریڈٹ) کی اسکیم بھی شروع کی جائے۔ اس مقصد کے لئے رضا کار افراد پر مبنی اسلامی این جی اوز بھی قائم کی جاسکتی ہیں ۔ ہر صوبائی رکن اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں ایسی تنظیموں کی نگرانی کا فریضہ انجام دے سکتا ہے۔
مختصر المیعاد حکمت ِعملی کا تیسرا اہم نکتہ یہ ہونا چاہئے کہ ریاست کی قابل کاشت بنجر اراضی کو غریب کاشتکاروں میں تقسیم کردیا جائے۔ یہ اراضی پٹے پر بھی دی جاسکتی ہے اور مالکانہ حقوق کی بنیادوں پر بھی۔ مزید برآں چھوٹے درجہ کے کاشتکاروں کو زرعی ضروریات کی فوری تکمیل کے لئے قرضِ حسنہ دیا جائے۔
مندرجہ بالا تینوں اقدامات کیلئے مخصوص فنڈز منظو رکئے جائیں اور ان کی عادلانہ تقسیم کیلئے مناسب قواعد مرتب کئے جائیں ۔ ان کی تنفیذ کیلئے نہایت درجہ ایماندار افراد کا تقرر کیا جائے۔
طویل المیعاد فلاحی منصوبے
طویل المیعاد فلاحی و ترقیاتی اقدامات میں وہ منصوبہ جات شامل ہیں ، جنہیں ایک مالی سال یا زیادہ سالوں میں پایۂ تکمیل تک پہنچایا جاسکے۔ ان کا مختصر خاکہ درج ذیل ہے:
1. تعلیم:تعلیم کے شعبہ میں ترجیحی بنیادوں پر تشکیل نو کی جائے۔
درج ذیل تجاویز پر غور کیا جاسکتا ہے :
1. ایک اعلیٰ سطحی تعلیمی کمیشن قائم کیا جائے جس کا بنیادی مقصد پورے تعلیمی نظام کے ڈھانچہ کا جائزہ لے کر اس میں غیر اسلامی عناصر کی نشاندہی کرنا اور بعد میں اسے عصری تقاضوں کی روشنی میں اسلامی خطوط پراستوار کرنا ہو۔
2. جن تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم جاری ہے، انہیں فی الحال جاری رکھا جائے مگر اس میں