کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 12
فہرست مرتب کی جائے اور ماہانہ بنیادوں پر معقول مالی امداد کا بندوبست کیا جائے۔ ب۔ مستقل ذریعہ روزگار نہ رکھنے والے ایسے افراد جو خاندان کو معاشی ضروریات بہم نہ پہنچا سکتے ہوں ج۔ ایسے نوجوان تعلیم یافتہ حضرات جو بے روز گار ہوں ۔ د۔ مہاجرین افغانستان اور شہداء افغانستان کے خاندان۔ ھ نچلے طبقے کے سرکاری ملازمین جو اپنے خاندان کی کفالت کا بوجھ نہ اُٹھا سکتے ہوں ۔ و۔ وہ قیدی جن کے کنبوں کی کفالت کا بوجھ اٹھانے والا کوئی نہ ہو۔ یہ محض ایک مجوزہ درجہ بندی ہے، اس میں مناسب ردّوبدل کیا جاسکتا ہے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے بیت المال سے کفالت ِعامہ کے لئے درج ذیل ترجیحات وضع کررکھی تھیں : ۱۔اہل بیت ۲۔اہل بدر ۳۔مہاجرین ۴۔عامۃ المسلمین ان سب طبقات کے لئے الگ الگ رقوم کی مقدار مقرر تھی۔ دورِ حاضر کی اسلامی ریاست کے ذمہ داران عوام الناس کی معاشی حاجات کی نوعیت اور طبقات کے پیش نظر اپنے حساب سے درجہ بندی کرسکتے ہیں ۔ کفالت ِعامہ کا فریضہ نبھاتے ہوئے یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی حاجت مند کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ حتیٰ الامکان کوشش کی جائے کہ یہ کام خاموشی سے کیا جائے۔ آج کل دیکھا گیا ہے کہ بیت المال سے ۱۰۰ روپے کی وصولی کے لئے مستحق حضرات کو دفتروں کے دھکے کھانے پڑتے ہیں ، یہ طریقہ انتہائی نامناسب اور تکلیف دہ ہے۔ کفالت ِعامہ کے لئے بنائی گئی مقامی کمیٹیوں کے ارکان کی ذمہ داری ہونا چاہئے کہ وہ مالی اعانت کی تقسیم کا کام اپنے ذمہ لیں ۔ ا س کام کے لئے یونین کونسلوں کے نیٹ ورک سے مدد لی جاسکتی ہے۔ گذشتہ دنوں وفاقی حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ وہ ہر سال ڈھائی لاکھ خاندانوں کو اڑھائی ہزار روپے سالانہ کے حساب سے معاشی امداد دے گی۔ اگرچہ یہ ایک کارِخیر ہوگا مگر اس قدر قلیل امدا د سے ایک ضرورت مند خاندان کی معاشی کفالت سے سبکدوش نہیں ہوا جاسکتا۔ مالی امداد کا تعین مختلف افراد اور خاندانوں کی کم از کم بنیادی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر کیا جانا چاہئے۔ اگر تدریجی بنیادوں پرصوبہ سرحد کے ایک لاکھ خاندانوں کی کفالت کا بندوبست کردیا جائے تو اس سے وسیع بنیادوں پر لوگوں کی مالی مشکلات کم ہوسکتی ہیں ۔ مختصر المیعاد منصوبہ بندی میں دوسرا اہم نکتہ قرضِ حسنہ کی فراہمی ہے۔ بہت سی بے کار