کتاب: محدث شمارہ 267 - صفحہ 10
عامہ کو اوّلیت کا مقام حاصل ہے۔ اسلامی ریاست ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت کی ذمہ دار ہے۔ محسن انسانیت، خیرالبشر، سرورِ انبیا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: وأيما اهل عرصة أصبح فيهم امرؤ جائع فقد برئت منهم ذمة ﷲ تعالی ’’کسی بستی میں کوئی شخص صبح اس حال میں اُٹھے کہ وہ رات بھر بھوکا رہا ہو تو پھر اللہ تعالیٰ پر اس بستی کی بقاء و تحفظ کی کوئی ذمہ داری نہیں رہ جاتی۔‘‘ (مسندامام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ :۲/۳۳) قرآنِ مجید میں ہے : ﴿ وَيُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّهٖ مِسْکِيْنًا وَّيَتِيْمًا وَّاَسِيْرًا﴾ ’’وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مسکینوں ، یتیموں اور قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں ۔‘‘ (الدہر:۸) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من کان عنده طعام اثنين فليذهب بثالث وإن أربع فخامس أو سادس‘‘ ’’جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو، وہ تیسرے آدمی کو مہمان بناکر شامل کرے اور اگر چار کا ہو تو پانچویں یا چھٹے کو۔ ‘‘ (متفق علیہ/بخاری: ۲۰۶، مسلم: ۵۳۳۳) کفالت ِعامہ کا یہی وہ فکر انگیز تصور تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا خلیفہ راشد یہ پکار اُٹھا کہ اگر فرات کے کنارے کوئی بکری کا بچہ بھی بھوک سے مرگیا تو قیامت کے دن عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔ علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’اس بات پر صحابہ کا اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص بھوکا ننگا یا ضروریاتِ رہائش سے محروم ہے تو مالدار کے خاص مال میں سے اس کی کفالت کرنا فرض ہے۔‘‘ (المحلّٰی: ۸/۱۵۸) احادیث ِنبوی اور آثارِ صحابہ کی روشنی میں ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ یہ مسئلہ تحریر کرتے ہیں : ’’ہر ایک بستی کے اربابِ دولت کا فرض ہے کہ وہ فقرا اور غربا کی معاشی زندگی کے کفیل ہوں اور اگر بیت المال کی آمدنی سے ان غرباکی معاشی کفالت پوری نہ ہوتی ہو تو سلطان ان اربابِ دولت کو ان کی کفالت کے لئے مجبور کرسکتا ہے۔ یعنی ان کے فاضل مال سے بالجبر لے کر فقرا کی ضرویات میں صرف کرسکتا ہے اور ان کی زندگی کے اسباب کے لئے کم از کم یہ انتظام ضروری ہے کہ ان کی ضروری حاجت کے مطابق روٹی مہیا ہو، پہننے کے لئے گرمی اور سردی دونوں موسموں کے لحاظ سے لباس فراہم ہو اور رہنے کے لئے ایک ایسا مقام ہو جو ان کو بارش، گرمی، دھوپ اور سیلاب جیسے اُمور سے محفوظ رکھے۔‘‘ (ایضاً) علامہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اہل دولت کے اَموال پر ان کے غریبوں کی معاشی حاجت کو بدرجہ کفالت پوری کرنا فرض کردیا ہے۔ پس اگر وہ بھوکے ننگے ہوں یا معاشی مصائب میں مبتلا ہوں