کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 9
بمناسکهم‘‘ (بیہقی:۵/۱۱۱) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم الترویہ (آٹھ ذوالحجہ) سے پہلے (سات ذوالحجہ) لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا ، جس میں ان کو ان کے مناسک کے بارے میں خبر دی۔‘‘ راقم کو باوجود بسیار کوشش کے ’یوم السابع‘ کے خطبہ کی تفصیل کتب ِاحادیث سے نہیں مل سکی اہل علم و تحقیق اس بارے میں مزید جستجو اور رہنمائی فرمائیں ۔ ذیل میں پیش کردہ روایات کی تحقیق و تخریج بقدر امکان کی گئی ہے ۔اور احتیاط کے لئیاحادیث کے تراجم نامور سیرت نگاروں کی کتب سے لئے گئے ہیں ، صرف وہ احادیث جن کا ترجمہ ان کتب سے نہ مل سکا ، راقم کا کیا ہوا ہے۔ وما توفيقی إلا بالله خطبہ یوم عرفہ … ۹ ذوالحجہ وقت او ر دِن :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے دن کا خطبہ بطن وادی (عرفہ) میدانِ عرفات میں سواری پر جمعہ کے دن ظہر کی نماز سے پہلے ارشاد فرمایا جیسا کہ اس کا ذکر آگے روایات میں آرہا ہے: سنن ابی داؤد میں خالد بن عداء سے روایت ہے کہ؛’’رأيت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يخطب الناس يوم عرفة علی بعير قائم فی الرکابين‘‘ (صحیح ابوداود للالبانی )۱۶۸۷،۱۶۸۶) ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرفہ کے دن اونٹ کی رکابوں پر کھڑے ہوکر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔‘‘ مسلم، سنن ابی داود، مستدرک حاکم ابن ماجہ میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ ارشاد فرمانے کے بعد ’’ثم أذّن بلال ثم أقام فصلی الظهر‘‘ بلال رضی اللہ عنہ نے اذان کہی اور ظہر کی نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خطبہ ظہر سے پہلے دیا تھا۔ (واللہ اعلم) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یوم عرفہ جمعہ کے دن تھا۔چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ آیت ﴿ ألْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ…﴾کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : وهو قائم بعرفة يوم جمعة (بخاری ۴۴۰۷، ۴۶۰۶، نسائی ۵۰۱۲) جبکہ دوسری روایت میں أنزلت لیلۃ الجمعۃ کے الفاظ بھی ہیں اور ان دونوں روایتوں میں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ یہ جمعہ کا دن تھا جس کی یہ آیت اتری اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی شام کی مناسبت سے اسے لیلۃ الجمعۃ کہہ دیا ورنہ لیلۃ الجمعۃ سے ان کی مراد جمعرات نہ تھی۔