کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 79
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو برا کہتے ہیں اور حق تعالیٰ کے غضب سے نہیں ڈرتے۔
ایک طرف ڈھیلا سکھاؤ ظاہر پرست کٹھ ملاؤں کا زور ہے جو حضرات صوفیا کی تحقیر کرتے ہیں اور اولیاء اللہ سے بالکل محبت اور اعتقاد نہیں رکھتے۔ نہ اصلاحِ باطن کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہودیوں کی طرح صرف ظاہری اصلاح پر زور دیتے ہیں … دوسری طرف گور پرستوں اور پیر پرستوں کا شور ہے جوشرک و بدعت میں گرفتار ہیں ۔ اولیاء اللہ کی قبروں کا بوسہ اور طواف کرتے ہیں ۔ وہاں عرضیاں لٹکاتے ہیں ، نذریں چڑھاتے ہیں ، ان کی منت مانتے ہیں ، قبروں پر میلے جماتے ہیں ، وہاں عرس صندل مالی روشنی چراغاں کرتے ہیں اور نماز، روزہ سے زیادہ ان کاموں کا اہتمام کرتے ہیں ۔ سچے متبعین ِسنت کو جو قبر کی زیارت سنت کے موافق کرتے ہیں ، ’وہابی‘ ،’منکر اولیا‘ قرار دیتے ہیں ۔ یا الٰہ العالمین! کیا فساد کا زمانہ آگیا ہے۔ تو ہی اس زمانہ میں ایمان کابچانے والا ہے۔ ہم کوصراطِ مستقیم پر جس میں نہ اِفراط ہو، نہ تفریط، قائم رکھ۔ آمین !۔‘‘ (لغات الحدیث بذیل مادّہ شعف)
مذکورہ اقتباس جہاں موصوف کی آزادیٔ فکر کی بھرپور عکاسی کرتا ہے وہاں ان کے صحابہ کرام کے سچا شیدائی ہونے اور ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کرنے والوں سے بریٔ الذمہ ہونے کی بھی نشاندہی کرتا ہے۔ مرحوم کے مسلک کے بارے میں ہمیں انہی کے معاصر مولانا حکیم سید عبدالحی(والد سید ابو الحسن ندوی) کی رائے ہی سے اتفاق ہے جسے وہ اپنی کتاب ’نزہۃ الخواطر‘ میں ان الفاظ کے ساتھ تحریر فرما چکے ہیں کہ
’’کان شدیدا في التقلید في بدایۃ أمرہ ثم رفضہ وتحرر واختار مذھب أھل الحدیث مع شذوذ عنھم في بعض المسائل‘‘ (ص۵۱۵، ج۸)
’’موصوف ابتدائی دور میں تقلید کے پرزور حامی تھے، پھر تقلید سے تائب ہوکر ’اہل حدیث‘ہوگئے لیکن اس کے باوجود بعض مسائل میں یہ ’اہلحدیث‘ سے بھی جداگانہ نکتہ نظر رکھتے تھے۔‘‘