کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 5
وارد ہوئے کہ یہاں وہ اسلامی نظام کی برکات سے متمتع ہوں گے۔ مگر ان کی آرزوؤں کی کھیتیاں اسلامی نظام کی بوند بوند کوترس رہی ہیں ، ان کی اُمنگوں کے چمن ابھی تک خزاں دیدہ ہیں ، ان کی قربانیوں کے ثمر آور ہونے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہے۔ بس ایک حسرتِ ناتمام ہے جو ان کی روحوں کو گھائل کئے دیتی ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ اسلامی نظام کی شمعیں ٹمٹماتی نظر آئیں ، جذبے ایک دفعہ بیدار ہوتے نظر آئے، فرنگی کے چھوڑے ہوئے نظام کی گرفت ڈھیلی پڑتی نظر آئی، مگر یہ سب کچھ شفق کی لو تھی جس کے بعد منظر ایک دفعہ پھر تاریکی میں ڈوب جاتا ہے۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک ِنظامِ مصطفی برگ و بار لائے بغیر ختم ہوگئی، آئین کو اسلامیانے کی ساری کاوشیں بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں ، انتخابی سیاست بھی حوصلہ افزا نتائج پیدا نہ کرسکی۔ پاکستان میں جب نفاذِ اسلام کی اُمیدیں کمزور پڑ گئیں ، تو قریبی ہمسایہ ملک افغانستان سے طالبان اسلام کا پرچم لے کر اٹھے اور اپنے دست و بازو سے ملک کے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ طالبان کی کامیابی نے پاکستان میں دین پسندوں میں ایک ولولہ تازہ پیدا کردیا۔ یہاں جہادی تنظیموں نے زور پکڑا مگر پاکستان کے معروضی حالات افغانستان سے مختلف تھے۔ پاکستان میں تبدیلی جمہوری جدوجہد کے ذریعے ہی لائی جاسکتی ہے۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے اور پاکستان میں امریکی افواج کی موجودگی نے اسلامی انقلاب کا خواب دیکھنے والے رومانیت پسندوں کی اُمیدوں کو خاک میں ملا دیا۔ مایوسی اور قنوطیت کے سائے جب خوفناک حد تک گھمبیر ہوتے دکھائی دیئے تو قدرت نے ایک دفعہ پھر اُمید افزا صورتحال پیدا کردی ہے۔ ایک دفعہ پھر ’ہوتا ہے جادۂ پیما پھر کارواں ہمارا‘ کے ترانے گونجنے لگے ہیں ۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ کےانتخابات میں ’متحدہ مجلس عمل‘ کی کامیابی نے پاکستان میں نفاذِ اسلام کے نئے امکانات روشن کردیئے ہیں !! مندرجہ بالا طولانی تمہید متحدہ مجلس عمل کی کامیابی کا پس منظر بیان کرنے کے لئے پیش نہیں کی گئی، بلکہ اس کا بنیادی مقصد پاکستان میں نفاذِ اسلام کے متعلق عام مسلمان جو توقعات وابستہ کرتے ہیں ، اس کااحساس دلانا ہے۔ آئندہ شمارہ میں جو کچھ پیش کیا جائے گا، وہ پاکستان میں نفاذِ اسلام کا مفصل خاکہ ہرگز نہیں ہے بلکہ اس میں بیان کیا جائے گا کہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت کس طرح اپنی ترجیحات کا تعین کرنے کے بعد تدریجی انداز میں نفاذِ اسلام کے کٹھن نصب العین پر عمل درآمد کا آغاز کرے۔اِن شاء اللہ! (محمد عطاء اللہ صدیقی)