کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 48
امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں کہ : ’’یہ ممکن ہے کہ ’لہ‘ میں ’لام‘ بمعنی ’علی‘ (یعنی ’علیہ‘) ہو جیسا کہ اس ارشادِ باری تعالیٰ میں ﴿ وَاِنْ أسَاْتُمْ فَلَهَا﴾ سے مراد ہے۔‘‘(۶۸ ) شارح ترمذی علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۵۲ھ) فرماتے ہیں : ’’جہاں تک امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ حدیث کا تعلق ہے تو میں بھی اس کا جواب چند پہلو سے دیتا ہوں جس طرح کہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے ’ صحیح مسلم‘کی شرح میں اس کا جواب متعدد وجوہ سے دیا ہے اور ان میں سے اوّل یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، لہٰذا اس سے دلیل پکڑنا درست نہیں ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس میں مولی التوأمہ کا تفرد ہے، اور وہ خود ضعیف ہے۔ دوم یہ کہ ’سنن ابوداود‘ کے مشہور، محقق اور مسموع نسخوں میں اس حدیث کے یہ الفاظ ملتے ہیں کہ ’’جس نے مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھی، اس پر کوئی گناہ نہیں ہے‘‘، لہٰذا اس حدیث سے ان کا استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ سوم یہ کہ اگر یہ حدیث ثابت ہوجائے اور یہ بھی ثابت ہوجائے کہ ’’اس کے لئے کچھ نہیں ہے‘‘ تو بھی اس کی یہ تاویل واجب ہوگی کہ ’اس پر‘ (علیہ) یا ’اس کے لئے‘ (لہ) کوئی گناہ نہیں ہے تاکہ دونوں روایتوں کے مابین جمع و تطبیق قائم ہوسکے۔ مزید فرماتے ہیں کہ ’لہ‘ ،’علیہ‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ اس ارشادِ باری تعالیٰ سے واضح ہے: ﴿ وَاِنْ أسَأتُمْ فَلَهَا﴾ اور چہارم یہ کہ یہ حدیث اس شخص کے اجر میں کمی پر محمول ہوگی جو مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھ کر لوٹ جائے اور قبرستان تک میت کے ساتھ نہ جائے ، کیونکہ جو اجر اس سے چھوٹا وہ قبرستان تک میت کے ساتھ جانے اور تدفین کے وقت اس کی موجودگی کا ہے۔‘‘(۶۹ ) شارحِ سنن ابی داود علامہ ابوطیب شمس الحق محدث عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۲۹ھ) فرماتے ہیں کہ ’’یہ بات ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھیں اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ ان دونوں خلفا کے جنازوں کی نمازوں میں عام مہاجرین اور انصار (صحابہ رضی اللہ عنہم )نے شرکت کی تھی۔ پس صحابہ کا اس فعل پر ترکِ نکارت اس کے جواز کی دلیل ہوئی۔ اس بات کا بھی احتمال ہے کہ اس حدیث کا یہ معنی لیا جائے کہ اس سے متاوّلاً اجر میں کمی کا اثبات ہوتا ہے۔ اور یہ اس وجہ سے ہے کہ جولوگ مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھتے ہیں ، ان میں سے بیشتر نماز کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور تدفین میں شریک نہیں ہوتے۔ جو شخص جنازہ کے لئے سعی کرے، اس پرنمازِ جنازہ پڑھے، قبرستان جائے اور تدفین میں شریک ہو تو اس کے لئے دو قیراط کا اجر ہے۔