کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 47
التفات ہے: وهذا خبر باطل ، کيف يخبر المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم أن المصلی في الجنازة لاشيئ له من الأجر، ثم يصلی هو صلی اللہ علیہ وسلم علی سهيل ابن البيضا في المسجد‘‘(۶۳ ) حدیث زیر مطالعہ کے معنی کے تعیین اور رفع تعارض کے لئے تاویل اب جبکہ حدیث زیر بحث لائق استدلال ثابت ہوچکی ہے تو ضروری محسوس ہوتا ہے کہ اس حدیث کے معانی اور اس کی اصل مراد کو سلف و صالحین، ائمہ و فقہائے حدیث نیز محقق علماء و شارحین کے اقوال کی روشنی میں سمجھا جائے، چنانچہ ملا علی قاری حنفی رحمۃ اللہ علیہ (۱۰۱۴ھ) فرماتے ہیں : ’’صحیح روایت میں ’’فلاشيئ له‘‘ ہے، میں کہتا ہوں کہ یہ روایت ’’فلاشيئ عليه‘‘ پر محمول ہے اور میں نے اس مسئلہ کو ایک مستقل رسالہ میں بیان کیا ہے۔‘‘(۶۴ ) لیکن امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ (۶۱۵ھ) فرماتے ہیں : ’’اگر یہ حدیث ثابت ہوجائے تو بھی اس بات کا احتمال ہے کہ اس سے مراد اجر میں کمی ہو، کیونکہ اگرمسجد میں نماز پڑھی جاتی ہے تو اکثر لوگ وہیں سے واپس لوٹ جاتے ہیں ، اور میت کی تدفین میں شریک نہیں ہوتے۔ اس کے برخلاف جس کی نماز قبروں کے پاس صحرا میں ہوتی ہے تو لوگ اسکی تدفین میں بھی شریک ہوتے ہیں اور اس طرح ان کیلئے دو قیراط کا اجر مکمل ہوجاتا ہے۔‘‘(۶۵ ) امام ابن قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ (۷۵۱ھ) فرماتے ہیں : ’’ اس بات کا احتمال بھی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث اگر ثابت ہو تو اس کا معنی یہ لیا جائے کہ اس سے متأولاً اجر میں کمی کا اثبات ہوتا ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ جو لوگ مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں ، ان میں سے بیشتر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں اور تدفین میں شریک نہیں ہوتے۔ جو شخص جنازہ کے لئے سعی کرے، پھر قبروں کے پاس اس کی نمازِ جنازہ پڑھے اور اس کی تدفین میں شریک ہو، اس کے لئے دو قیراط کا اجر ہے۔ اسی طرح جتنے زیادہ قدم چل کر جایا جائے اتنا ہی زیادہ اجر ملتا ہے۔ لہٰذا جو شخص مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھے، اس کے اجر میں مزید کمی ہوئی، بمقابلہ اس شخص کے جو کہ مسجد سے باہر نماز جنازہ پڑھے۔ ایک جماعت نے حدیث کے الفاظ ’’فلاشيئ له‘‘کی تاویل یہ کی ہے کہ اس سے مراد ’’فلاشيئ عليه‘‘ ہی ہے تاکہ دونوں الفاظ کے معانی میں وحدانیت و یکسانیت پیدا ہوجائے اور یہ دونوں الفاظ باہم متناقض بھی نہیں ہیں جیساکہ ارشادِ باری ہے:﴿ وَاِنْ أسَاْتُمْ فَلَهَا﴾(۶۶ ) اور اس میں ’’فلها‘‘ سے مراد ’’فعليها‘‘ ہے۔‘‘(۶۷ )