کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 46
جب ہم نے یہ تفصیل جان لی اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ حدیث ان سے ابن ابی ذئب کی روایت کردہ ہے تو اس کا اثبات واضح ہوا۔‘‘(۶۰ ) علامہ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : ’’پس جن ائمہ ، مثلاً امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے صالح مولی التوأمہ پرمجمل طعن کو لے کر اس حدیث کو تضعیف کی ہے، وہ لائق التفات نہیں ہے۔‘‘(۶۱ ) پھر آں رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی تصحیح سے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے وقف کی وجہ بزعم خود بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’میں کہتا ہوں کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تصحیح سے اس لئے توقف کیا ہے کہ اس وقت تک وہ تفصیل جو ہم نے اوپر نقل کی ہے، ان پر واضح نہ تھی یا وہ سمجھتے تھے کہ حدیث ِمذکور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کی معارض ہے جو کہ بلا شبہ صحیح ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ کسی حدیث پر نقد کرتے وقت ناقد کو ان فقہی امور کو ہرگز ملحوظ نہیں رکھنا چاہئے جن سے اسے یہ وہم ہوتا ہو کہ وہ فقہی امور اس حدیث کے خلاف ہیں ۔ پھر اس چیز کو وہ حدیث پر طعن کے لئے دلیل بنالے۔ یہ چیز اگرچہ علم حدیث کے قواعد میں سے نہیں ہے، لیکن اگر ایسا ہو اور اس نقد پراعتماد کیا جائے تو بہت سی صحیح احادیث جو قوی اسناد سے وارد ہوئی ہیں ، ان کا ردّ لازم آئے گا۔ اسی طرح اگر صالح کی حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کے خلاف ہے تو اس بنا پر اس پرطعن نہیں کرنا چاہئے، بلکہ باعتبارِ حدیثیت ان دونوں حدیثوں کے ثبوت کے بعد انکے مابین موافقت پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’شرح النخبہ‘ میں اور دوسرے ائمہ نے دوسری تصانیف میں بیان کیا ہے۔‘‘(۶۲ ) میں کہتا ہوں کہ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے نام نہ لیتے ہوئے بلا واسطہ مذکورہ بالا اقتباس میں محی السنہ بطل جلیل استاذ الائمہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو علل حدیث سے لا علم، فقہی اعتبار سے متعصب، نقد ِحدیث کی مبادیات سے ناواقف اور نقد ِحدیث میں انہیں ناقابل اعتماد ظاہر کرنے کی سعی نامشکور کی ہے، فاناللہ وانا الیہ راجعون۔ میں پوچھتا ہوں کہ امام ہمام رحمہ اللہ نے کتنی اور ایسی کن کن احادیث پر فقہی امور کوملحوظ رکھتے ہوئے طعن کیا ہے جو قوی اسناد سے وارد ہوئی ہیں ؟ اُمت ِمسلمہ اور خود علم حدیث پر امام رحمہ اللہ کے جو عظیم احسانات ہیں ، اُمت رہتی دنیا تک ان کے احسانات کے بوجھ تلے دبی رہے گی۔ البتہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا مندرجہ ذیل قول اپنی جگہ صد فیصد درست ہے، فرماتے ہیں کہ ’’پس اس بیان کے بعد امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا ’الضعفائ(۱/۳۶۶)‘ میں مذکور یہ قول ناقابل