کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 45
شارحِ ترمذی علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۵۲ھ) فرماتے ہیں : ’’میں کہتا ہوں کہ بظاہر ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث حسن ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے’تقریب التہذیب‘ میں صالح بن نبہان مدنی مولی التوأمہ کے متعلق لکھا ہے کہ صدوق ہے لیکن اپنے آخری دور میں مختلط ہوگئے تھے۔ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ان سے قدما مثلاً ابن ابی ذئب اور ابن جریج کی روایت میں کوئی حرج نہیں ہے، انتہی۔ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث صالح مولی التوأمہ سے ابن ابی ذئب کے واسطہ سے روایت کی ہے، لیکن یہ بھی ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھائی تھی اور اسی طرح حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد ہی میں پڑھا ئی تھی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پرنکارت کی تھی اور نہ ہی حضرت صہیب رضی اللہ عنہ پر۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا مسجد میں میت کی نماز جنازہ پڑھنے پر اجماع واقع ہوگیا۔ لہٰذا ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی مذکورہ حدیث کی تاویل اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ حدیث حسن ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘(۵۶ ) محدث مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ کے اس اقتباس میں علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی اس بات کا جواب بھی موجود ہے کہ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث زیر مطالعہ کی تاویل کیوں کر ضروری ہے۔ علامہ رحمۃ اللہ علیہ اس تاویل کی ضرورت سے انکار کرتے ہیں جیسا کہ حاشیہ نمبر ۳۴ سے متعلق اقتباس میں اوپر گزر چکا ہے۔ سید سابق فرماتے ہیں ’’کچھ ائمہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔‘‘(۵۷ ) علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو ایک مقام پر بلفظ ’’فلاشيئ له‘‘ ’حسن‘ قرار دیا ہے،(۵۸ ) اور بعض دوسرے مقامات پر بحوالہ مسند احمد و ابن ما جہ عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ’’فليس له شيئ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ’صحیح‘ قرار دیا ہے۔(۵۹ ) علامہ رحمہ اللہ صالح مولی التوأمہ کے مختلط ہونے کی بنا پرائمہ کی جانب سے اس حدیث کی تضعیف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’میں کہتا ہوں : اس کا سبب یہ ہے کہ وہ مختلط ہوگئے تھے۔ پس جنہوں نے ان سے اختلاط سے قبل سما ع کیا ہے، مثلاً ابن ابی ذئب تو وہ حجت (دلیل) ہیں لیکن جنہوں نے اختلاط کے بعد ان سے سماع کیا ہے، وہ حجت نہیں ہیں ۔ یہ تفصیل پرانے اور جدید دور کے تمام علما کی رائے پرقائم ہے (پھرامام ابن ابی حاتم رحمۃ اللہ علیہ سے، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال نقل کرتے ہیں )۔