کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 44
ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان کو حافظہ کی خرابی کے بعد پایا تھا لیکن انہوں نے ان سے سماع کیا ہے۔ لیکن ابن ابی ذئب نے ان سے حافظہ کی خرابی سے قبل سماع کیا تھا۔ امام علی بن مدینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ تھے سوائے اس کے کہ ان کا حافظہ چلا گیا تھا اور وہ بوڑھے ہوگئے تھے، مگر امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے حافظہ خراب ہونے کے بعد بھی سماع کیا ہے، لیکن ابن ابی ذئب کا ان سے سماع اس سے پہلے کا ہے۔ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کے اندر۱۲۵ھ میں تغیر آگیا تھا، چنانچہ ثقات کی طرف سے ایسی حدیثیں بیان کرتے تھے جو کہ موضوعات کے مشابہ ہوں ۔ پس ان کے اخیر دور کی حدیثیں ان کے قدیم دور کی حدیثوں سے گڈمڈ ہوگئی تھیں ، اور وہ ان کے درمیان تمیز نہیں کرپاتے تھے، چنانچہ مستحق ترک ہیں ۔ انتہیٰ‘‘(۵۰ ) امام منذری رحمۃ اللہ علیہ (۶۵۶ھ) فرماتے ہیں : ’’صالح مولی التوأمہ پر متعدد ائمہ نے کلام کیا ہے۔‘‘(۵۱ ) علامہ ابو طیب شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ (۱۳۲۹ھ) فرماتے ہیں : ’’صالح مولی التوأمہ کی تضعیف کی گئی ہے ۔ وہ آخر عمر میں اپنی حدیثوں کو بھول گئے تھے۔‘‘(۵۲ ) آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ : ’’میں کہتا ہوں کہ صالح بن نبہان مولی التوأمہ کے بارے میں امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ثقہ حجت ہے۔ تحریف سے قبل ان سے ابن ابی ذئب نے سماع کیا ہے اور جو چیز ان کے اختلاط سے قبل کی مسموع ہو، وہ ثبت ہے۔ امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قدماء کی ان سے روایت میں کوئی حرج نہیں ہے، جیسا کہ ’الخلاصۃ‘ میں مذکور ہے۔‘‘(۵۳ ) صالح بن نبہان مولی التوأمہ کے تفصیلی حالات کے لئے مندرجہ ذیل کتب اسماء الرجال(۵۴ ) کی طرف مراجعت مفید ہوگی۔ زیر مطالعہ حدیث کے تحسین و تصحیح چونکہ ابن ابی ذئب کا صالح مولی التوأمہ سے سماع قبل از اختلاط ثابت ہے لہٰذا حدیث زیربحث لائق اعتبار قرار پاتی ہے، چنانچہ محقق محدثین نے برملا اس کی تحسین فرمائی ہے۔ امام ابن قیم الجوزیہ رحمۃ اللہ علیہ (۷۵۱ھ) فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث حسن ہے کیونکہ یہ صالح سے ابن ابی ذئب کی روایت ہے اور ان کا سماع صالح کے اختلاط سے قبل کا ہے، لہٰذا ان کا ا ختلاط ان احادیث کے لئے موجب ِردّ نہیں ہے جو کہ اختلاط سے قبل کی ہوں ۔‘‘(۵۵ )