کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 43
ہے۔ امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ :عقلاً متغیر ہوگئے تھے، چنانچہ ثقات کی طرف سے ایسی روایات لاتے تھے جو کہ موضوعات (من گھڑت) جیسی ہوتی تھیں ۔ نتیجۃً ان کے آخری دور کی حدیثیں ان کے قدیم دور کی حدیثوں سے گڈمڈ ہوگئی تھیں اور وہ ان کے درمیان امتیاز نہیں کرپاتے تھے، لہٰذا مستحق ترک ہیں ۔‘‘(۴۵ ) امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ: ’’صالح مولی التوأمہ اہل علم میں سے تھے، ائمہ حدیث میں سے کچھ نے ان کے ضعف کی وجہ سے ان سے دلیل نہیں پکڑی ہے اور کچھ ان سے احادیث کو قبول کرتے ہیں ، بالخصوص جو ابن ابی ذئب ان سے روایت کرتے ہیں ، انتہیٰ۔‘‘(۴۶ ) امام ابن قدامہ المقدسی رحمۃ اللہ علیہ (۶۲۰ھ) فرماتے ہیں کہ : ’’مانعین کی دلیل صالح مولی التوأمہ سے مروی وہ حدیث ہے جس کے بارے میں امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ : اہل علم کا ایک طبقہ ان کے ضعف اور مختلط ہوجانے کے باعث ان کی حدیثوں میں سے کچھ بھی قبول نہیں کرتا، جبکہ دوسرا طبقہ ان سے احادیث کو قبول کرتا ہے، بالخصوص وہ احادیث جو ابن ابی ذئب نے ان سے روایت کی ہوں ۔ پھر بھی وہ اس کو مسجد کی آلودگی اور ناپاکی کے خوف پر محمول کرتے ہیں ۔‘‘(۴۷) امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ (۳۵۴ھ) فرماتے ہیں : ’’چونکہ اختلاط کی وجہ سے وہ اپنی قدیم اور آخر کی احادیث کے مابین امتیاز نہ کرپاتے تھے اور بعض احادیث کو دوسری احادیث کے ساتھ گڈمڈ کردیتے تھے، اور یہ وہ چیز ہے کہ جس سے انسان کی عدالت اُٹھ جاتی ہے، اور اس کی روایات ناقابل استدلال اور غیر معتبر ہوکر رہ جاتی ہیں ۔‘‘(۴۸ ) صاحب ’التقیید والایضاح‘ فرماتے ہیں : ’’وہ فی نفسہٖ صدوق تھے اِلا یہ کہ وہ آخر میں اختلاط کا شکار ہوگئے تھے۔ قدما مثلاً ابن ابی ذئب، ابن جریج اور زیاد بن سعد وغیرہ کی ان سے روایت میں کوئی جرح نہیں ہے۔‘‘(۴۹ ) امام ابن قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ (۷۵۱ھ) فرماتے ہیں : ’’میں کہتا ہوں کہ راوی ٔحدیث صالح فی نفسہٖ ثقہ ہے، جیسا کہ عباس الدوری رحمۃ اللہ علیہ نے امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فی نفسہٖ ثقہ تھے۔ ابن ابی مریم رحمۃ اللہ علیہ اور یحییٰ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ثقہ حجت ہے۔ میں نے ان کے متعلق سوال کیا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے تو انہیں ترک کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں حافظہ خراب ہونے کے بعد پایا تھا۔ امام