کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 41
امام زیلعی حنفی رحمۃ اللہ علیہ (۷۶۲ھ) فرماتے ہیں کہ’’امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے ’الکامل‘ میں اس حدیث کوبلفظ امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ وارد کیا ہے اور اسے صالح راوی کی منکرات میں شمار کیا ہے۔‘‘ (۴۱ ) امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ (۷۵۱ھ) فرماتے ہیں : ’’امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ہے جس میں صالح مولی التوأمہ کا تفرد ہے۔ اسی طرح امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث راوی صالح کے تفردات میں شمار ہوتی ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس سے صحیح تر ہے۔ راوئ حدیث صالح کی عدالت کے بارے میں ا ختلاف پایا جاتا ہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اس پر جرح کیا کرتے تھے، پھر انہوں نے حضرات ابوبکر و عمررضی اللہ عنہما کا تذکرہ کیا ہے کہ جن کی نماز ہائے جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھیں ۔‘‘(۴۲) امام عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بن احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ : ’’میں نے اپنے والد(امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ) سے حضرت ابوہریرہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس حدیث کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث نقل کرتے ہوئے فرمایا: ’’جب تک صالح مولی التوأمہ کی حدیث ثابت نہ ہو، وہ ان کے نزدیک ثبت نہیں یا صحیح نہیں ہے۔‘‘(۴۳) علامہ سید سابق فرماتے ہیں : ’’امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اس میں التوأمہ کے آزاد کردہ غلام صالح کا تفرد ہے ، اور وہ ناقابل اعتبار راوی ہے۔‘‘(۴۴ ) حدیث زیر مطالعہ کے متکلم فیہ راوی کے متعلق محدثین کی آرا امام عجلی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں ’ثقہ‘ قرار دیا ہے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’صدوق تھے، آخر میں اختلاط کرنے لگے تھے، لہٰذا امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ قدماء مثلاً ابن ابی ذئب اور ابن جریج کے ان سے سماع میں کوئی حرج نہیں ہے، طبقہ رابعہ میں سے تھے اور ۱۲۵ھ میں وفات پائی تھی۔‘‘ آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ’’ان میں ضعف ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں :’’اپنے اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔‘‘ اصمعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ ’’شعبہ رحمۃ اللہ علیہ ان سے روایت نہیں کرتے تھے، بلکہ اس سے منع فرماتے تھے۔‘‘ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ان کو ’غیر ثقہ‘ قرار دیا ہے، چنانچہ وہ ان سے کوئی روایت نہیں لیتے تھے۔ امام یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ان کا ’غیر قوی‘ ہونا منقول ہے۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ ’’امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے صالح کو پایا تھا جبکہ وہ بوڑھے ہوچکے تھے اور