کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 40
حدیث ِزیر مطالعہ کی تضعیف امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ (۳۵۴ھ) نے اس حدیث کو صالح بن نبہان کے ترجمہ میں ناقابل استدلال اور غیر معتبر روایت قرار دیتے ہوئے بطورِ مثال پیش کیا ہے، اور فرماتے ہیں کہ ’’یہ خبر باطل ہے۔ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح یہ خبر دے سکتے تھے کہ جو مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھے، اس کے لئے کوئی (اجر) نہیں ہے، حالانکہ خود آں صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سہیل بن بیضا رضی اللہ عنہ کی نمازِ جنازہ مسجد میں پڑھائی تھی۔‘‘(۳۵ ) امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ (۷۴۸ھ) نے بھی صالح بن نبہان کے ترجمہ کے تحت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ان کی تین احادیث بطورِ مثال نقل کی ہیں جن میں سے ایک یہی زیر بحث حدیث ہے۔ پھر آں رحمہ اللہ نے اس کے متعلق امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ کا مذکورہ بالا قول نقل کیا ہے اور مجموعی طور پر ان تینوں احادیث کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’صحاح کی یہ احادیث امام ابن معین رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہی مرتبہ رکھتی ہیں جو کہ انہوں نے بیان کیا ہے۔‘‘(۳۶) امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ (۵۱۶ھ) فرماتے ہیں کہ : ’’یہ حدیث سنداً ضعیف ہے، اور صالح مولی التوأمہ کے تفردات میں شمار ہوتی ہے۔(۳۷ ) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (۶۷۶ھ) فرماتے ہیں کہ ’’یہ حدیث ضعیف ہے اور اس سے استدلال درست نہیں ہے۔‘‘ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے، اس میں صالح مولی التوأمہ کا تفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘(۳۸ ) آں رحمہ اللہ ’الخلاصۃ‘ میں مزید فرماتے ہیں کہ ’’امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہ ، امام خطابی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تضعیف کی ہے، اور یہ تمام محدثین کہتے ہیں کہ یہ مولی التوأمہ کے تفردات میں سے ہے، اور اس کی عدالت مختلف فیہ ہے۔ ان لوگوں کی سب سے بڑی جرح ان کے ’اختلاط‘ کی ہے، لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ابن ابی ذئب کا ان سے سماع ’اختلاط‘ سے قبل کا ہے۔‘‘(۳۹ ) امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ (۵۹۷ھ) فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کے راوی صالح کی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے تکذیب کی ہے ، اور امام ابن حبان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان کی عقل میں فتور آگیاتھا، چنانچہ ایسی چیزیں لاتے تھے جو موضوعات (من گھڑت) کے مشابہ ہوتی تھیں ۔‘‘(۴۰ )