کتاب: محدث شمارہ 266 - صفحہ 39
سے معنوی شذوذ بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے۔ پس شذوذ فی المتن کا دعویٰ غلط قرار پاتا ہے۔ لغوی اعتبار سے اسے ’منفرد عن الجمہور‘ تو کہا جاسکتاہے لیکن اصطلاحاً اسے ’شاذ‘ کہنا ظلم ہے۔ اگر علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ شذوذ کی بجائے ’ترجیح‘ کو اپناتے تو شاید معاملہ اتنا سنگین نہ ہوتا، مگر علامہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کو شاذ قرار دے کر گویا غیر معتبر اور مردود قرار دیا ہے، فانا لله وانا اليه راجعون۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کبار محدثین میں سے علل الحدیث کے ماہرین اور نقاد حدیث میں سے کسی کو بھی اس میں شذوذ نظر نہیں آیا۔ اگر علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک جمہور سے روایت میں منفرد ہونا ہی شاذ قرار دینے کے لئے کافی ہے تو آخر آں رحمہ اللہ کو اس روایت میں شذوذ کیوں نظر آیاجس میں ’’فلا أجر لہ‘‘ کے الفاظ مروی ہیں حالانکہ بقولِ محدثین یہ فحش خطا ہے۔ میں مزید کہتا ہوں کہ امام طیالسی رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی جس زیادت کی طرف علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اشارہ کیا ہے، اس سے کسی بھی طرح ان کے موقف کو تقویت نہیں ملتی ہے کیونکہ یہ زیادت تو اس بات کا اثبات کرتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں مسجد میں نمازِ جنازہ ہوا کرتی تھی۔ مزید یہ کہ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا واپس لوٹ جانااس حکم سے ان کی لاعلمی کی بنا پر محمول ہوگا، نہ کہ اس کی کراہت یا ممانعت پر۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان لوگوں کی نگاہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول ہی حجت ہو یا پھر چونکہ مسجد کے باہر جنائز کے لئے ایک جگہ عہد ِنبوی میں مخصوص تھی، اس لئے وہ سمجھتے ہوں کہ وہیں جنازہ پڑھا جائے۔ یہ ان اشخاص کی ذاتی رائے تو ہوسکتی ہے، شرعی دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ ثابت شدہ عمل نبوی کے مقابلہ میں کسی کا کوئی مخالف موقف لائق اعتنا نہیں ہوسکتا، واللہ اعلم! پس واضح ہوا کہ مذکورہ بالا زیادت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا سراسر ناانصافی پر مبنی ہے کہ اس زیادت کے الفاظ جماعت ائمہ کے الفاظ کو مزید مؤکد اور امام ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ کی نفی کرتے ہیں ، لہٰذا علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول ناقابل التفات ہے کہ : ’’یہ زیادت اس تاویل کے بطلان پر بھی دلالت کرتی ہے جو جماعت ِائمہ کی روایت کو بقول ان کے ابوداود رحمۃ اللہ علیہ کی روایت: ’’فلاشيئ عليه‘‘ کے ہم معنی اور غیر متناقض بنانے کے لئے کی جاتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ’ تاویل‘ تصحیح کی ایک شاخ ہے، پس جب کہ ہم نے ابوداود کی روایت کا شذوذ واضح کردیا ہے اور اس میں کوئی شک بھی باقی نہیں ہے تو’تاویل‘ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔‘‘(۳۴ )